دونوں پریشاں ہو گئے
سب سے پہلے عشق میں انگلی ہی پکڑی جائے ہے
رفتہ رفتہ پھر کہیں پہنچے کا نمبر آئے ہے
روز مجھ کو وعدۂ فردا پہ جو ٹرخائے ہے
میں تری چالوں کو سمجھوں ہوں مجھے بہلائے ہے
وہ تو سچ مچ قتل کے میداں میں ہیں خنجر بکف
اب نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے نہ بھاگا جائے ہے
دل تو دل ہاں جان کھو کر بھی نہ پایا آپ کو
ہم تو سنتے آئے ہیں جو کھوئے ہے وہ پائے ہے
دیکھ ہاتھا پائی کی نوبت نہ آ جائے کہیں
کیا تری شامت نہ گھیرا ہے جو تو شرمائے ہے
ان کی چاہت تھی مجھے اب میری چاہت ہے انہیں
حسن بھی تو عشق کے سانچے میں ڈھلتا جائے ہے
تجھ سے تیری زلف سے دونوں پریشاں ہو گئے
مجھ کو تو لٹکائے ہے اور دل کو وہ لٹکائے ہے
مجھ سے یہ کہہ کر سفارش کر رہے ہیں غیر کی
ہائے بیچارہ ہمیشہ ٹاپتا رہ جائے ہے
ارض دل سن کر عجیب انداز سے کہنے لگے
میری سنتا ہی نہیں بس اپنی اپنی گائے ہے
کچھ مری تدبیر سے کچھ غیر کی تقدیر سے
کام بنتا ہے مگر بن بن کے بگڑا جائے ہے
شربت دیدار کی امید ان سے کیا کریں
اب شکر ملتی نہیں ہے صرف گڑ کی چائے ہے
جاگنا اور انتظار یار کرنا ہے فضول
روز کا دھندا ہے یہ وہ آئے ہے نہ جائے ہے
اک جھلک دکھلا کے تو ہفتوں کو پنہاں ہو گیا
مجھ پہ میرے یار کیوں جھوٹا کرم فرمائے ہے
بات قابو کی نہیں ہے اب تو میں مجبور ہوں
کیا طبیعت کو سنبھالوں دل تو پھسلا جائے ہے
میں نے مانا شعر میرے کچھ نہیں پھر بھی ظریفؔ
کچھ نہ کچھ محفل کا ان سے رنگ تو جم جائے ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.