دوست رخصت ہو گئے
ان سے ملاقاتیں گئیں باتیں گئیں
شہر تھا آباد جن کے دم قدم سے
وہ ہماری چاندنی راتیں گئیں
مرنے والے مر گئے
زندہ مگر ہم بھی نہیں
وہ تو غسل آخری لے کر ہوئے پھر تازگی سے آشنا
نتھرے ستھرے اوڑھ کر اپنی سفیدی کے کفن
کافور کی خوشبو کو نتھنوں میں سمائے
سو گئے آرام سے ٹھنڈے بدن
اپنی اپنی قبر پر تکیہ کیے
وہ تھکن کی اس مسلسل سرسراہٹ سے تو اب آزاد ہیں
سانس کی زنجیر سے لٹکے ہوئے
جاگتے رہنے کی کاوش اور لگن
اس تگ و دو سے پرے آباد ہیں
اور ہم
جو اس کنارے پر کھڑے
روز و شب لہروں کا کرتے ہیں شمار
آپ بیتی روز سنتے ہیں
مگر خاموش ہیں
خامشی سے بہتا پانی
روز بہتا دیکھتے ہیں
ڈوب جانے کی مگر ہمت نہیں
کون جانے ڈوب ہی جائیں کہیں
ڈوب جاؤ یا چلے آؤ ادھر
باز آؤ اور پھر زندہ رہو
ساتواں در بھی کھلا ہے منتظر
داغ ہجرت دے گئے خوشبو کے پھول
کون اب بن کر چراغ راہ تم کو
ہاتھ سے انگلی پکڑ کر
طفل مکتب کی طرح لے کر بڑھے
اور یہ کہے
موت کا لمحہ ہماری زندگی کا آ گیا
جسم کی ٹھنڈک تو دستک دے رہی ہے
آؤ کچھ باتیں کریں
اور پھر چلیں
دوست رخصت ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.