دوست شکاری
دلچسپ معلومات
(تلور کا شکار کرنے والے بے رحم عرب شہزادوں اور ان کے سہولت کاروں کی نذر)
ہمارے روہی میں کچھ پرندے
دکھوں کے مارے ہوئے مسافر
ہزار میلوں سے کر کے ہجرت
پناہ لیتے ہیں اس یقیں پر
کہ وہ ہیں مہمان اس زمیں پر
جہاں کے باسی ہزار سالوں سے
ان پرندوں کو جانتے ہیں
اور ان کو اپنا بھی مانتے ہیں
مگر یہ سب بے وطن پرندے
دکھوں کے مارے ہوئے مسافر
ہماری نیت سے بے خبر ہیں
انہیں تو یہ بھی خبر نہیں ہے
کہ روہی والے بدل چکے ہیں
گلاب کانٹوں میں ڈھل چکے ہیں
جو سانپ کمسن تھے پل چکے ہیں
انہیں تو یہ بھی خبر نہیں ہے
کہ مہرباں میزبان ان کے
کسی کی انگلی کے اک اشارے پہ
آج قاتل بنے ہوئے ہیں
اور ان کی جانب سے ہر سڑک پر
ہزاروں بینر لگے ہوئے ہیں
کہ جن پہ یہ بے ضمیر جملے
قلم سے زر کے لکھے ہوئے ہیں
کہ شیخ زادو چلے بھی آؤ
چلے بھی آؤ چلے بھی آؤ
یہاں کے باسی یہاں کے شہری
تمہاری فرقت میں مر رہے ہیں
شکار کے دن گزر رہے ہیں
سو ہم غریبوں پہ رحم کھاؤ
چلے بھی آؤ چلے بھی آؤ
کہ بے وطن بے اماں مسافر
ہمارے مہمان سب پرندے
دکھوں کے مارے ہوئے مہاجر
تمہاری گولی کے منتظر ہیں
لہو کی ہولی کے منتظر ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.