تپتی ہوں ریت پہ دریا کی ترائی دے دے
کب کہا میں نے مجھے ساری خدائی دے دے
مسکن خاک بھنور خوف کے اور موج ہوا
ایک قطرہ ہوں سمندر میں رسائی دے دے
بال کھولے ہوئے ڈائن سی ڈراتی ہے حیات
دل کو ادراک رہ عقدہ کشائی دے دے
اور قانون بنا کوئی زمانے کے لئے
پست اوہام سے ذہنوں کو رہائی دے دے
میری آنکھوں میں دھواں ہے کہ اندھیرا ہے جہاں
دل کی وہ شمع جو دنیا نے بجھائی دے دے
کبھی ایسا بھی ہو میں خود کو نہ دیکھوں تنہا
میری سوچوں سے کبھی مجھ کو رہائی دے دے
اتنی تنویر کہ میں عکس ہی دیکھوں اپنا
ایک شب مجھ کو بھی تاروں کی کمائی دے دے
آج پھر گھیرا ہے صحراؤں نے بستی کو مری
پھر مجھے ذوق جنوں آبلہ پائی دے دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.