دنیا کو کہاں تک جانا ہے
دنیا کو کہاں تک جانا ہے
یہ کتنا بڑا افسانہ ہے
سب کان لگائے بیٹھے ہیں
اور رات سرکتی جاتی ہے
یہ رات کہاں تک جانی ہے
کچھ اس کا اور و چھور نہیں
یہ رات سمندر ہے جس میں
آواز بہت ہے رونے کی
بس دور تلک تاریکی ہے
کچھ دور ذرا سی روشنیاں
پھر تاریکی پھر روشنیاں
یہ رات بلا کی مایا ہے
جو کچھ کا کچھ کر دیتی ہے
آنکھوں کو جگاتی ہے برسوں
پھر نیند کا دھکا دیتی ہے
پھر خواب دکھاتی ہے برسوں
پھر خوابوں سے چونکاتی ہے
یہ کھیل بھیانک راتوں کا
انسان کی ننھی ذاتوں کا
خوش ہونا اور دہل جانا
پھر آنسو آنسو گل جانا
اس کھیل میں جو بھی ہار گیا
پھر مٹھی سے سنسار گیا
اس کھیل میں پھنسنا ہے پیارے
بس ہاتھ میں جتنی مٹی ہے
اس مٹی سے سنسار بنا
اسے اپنے آنسو کا پانی
اسے اپنے ہجر کی گرمی دے
اسے موسم موسم نرمی دے
اسے اپنے انگ لگا پیارے
اسے اپنے رنگ لگا پیارے
دنیا کو کہاں تک جانا ہے
یہ کتنا بڑا افسانہ ہے
یہ بھید نہ کوئی جان سکا
اس بھید کا چکر بھاری ہے
- کتاب : mai.n ronaa chaahtaa huu.n (Pg. 122)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.