برگ آوارہ صدا آئے ہیں
کوئی آوازۂ پا لائے ہیں
تیرے پیغام رساں ہیں شاید
اور پیمان وفا لائے ہیں
گفتگو نرم ہے لہجہ دھیما
اب کے انداز جدا لائے ہیں
اک ندامت بھی ہے پچھتاوا بھی
خفت جرم و جفا لائے ہیں
آنکھ میں اشک پشیمانی کے
ہونٹ پر حرف دعا لائے ہیں
سارے سامان رفوگری کے
جیب و دامن میں اٹھا لائے ہیں
مرہم زخم کے انبار کے ساتھ
پارۂ خاک شفا لائے ہیں
شاخ زیتون بھی عمامے بھی ہیں
اور عبائیں بھی سلا لائے ہیں
حجر اسود نے چھوا ہے جس کو
ایک ایسی بھی ردا لائے ہیں
کچھ مدینے کی کھجوروں کے طبق
کاسۂ سر پہ سجا لائے ہیں
ایک مشکیزۂ آب زم زم
پشت نازک پہ اٹھا لائے ہیں
اگلے پچھلے سبھی مقتولوں کا
گویا کہ خون بہا لائے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.