دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو
ہم بھی آرام اٹھا سکتے تھے گھر پر رہ کر
ہم کو بھی پالا تھا ماں باپ نے دکھ سہہ سہہ کر
وقت رخصت انہیں اتنا بھی نہ آئے کہہ کر
گود میں آنسو کبھی ٹپکے جو رخ سے بہہ کر
طفل ان کو ہی سمجھ لینا جی بہلانے کو
دیش سیوا ہی کا بہتا ہے لہو نس نس میں
اب تو کھا بیٹھے ہیں چتوڑ کے گڑھ کی قسمیں
سرفروشی کی ادا ہوتی ہیں یوں ہی رسمیں
بھائی خنجر سے گلے ملتے ہیں سب آپس میں
بہنیں تیار چتاؤں پہ ہیں جل جانے کو
نوجوانوں جو طبیعت میں تمہاری کھٹکے
یاد کر لینا کبھی ہم کو بھی بھولے بھٹکے
آپ کے عضو بدن ہوویں جدا کٹ کٹ کے
اور صد چاک ہو ماتا کا کلیجہ پھٹکے
پر نہ ماتھے پہ شکن آئے قسم کھانے کو
اپنی قسمت میں ازل سے ہی ستم رکھا تھا
رنج رکھا تھا محن رکھا تھا غم رکھا تھا
کس کو پرواہ تھا اور کس میں یہ دم رکھا تھا
ہم نے جب وادئ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یاد وطن آئی تھی سمجھانے کو
اپنا کچھ غم نہیں ہے پر یہ خیال آتا ہے
مادر ہند پہ کب سے یہ زوال آتا ہے
دیش آزادی کا کب ہند میں سال آتا ہے
قوم اپنی پہ تو رہ رہ کے ملال آتا ہے
منتظر رہتے ہیں ہم خاک میں مل جانے کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.