Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوسری نظم

صلاح الدین پرویز

دوسری نظم

صلاح الدین پرویز

MORE BYصلاح الدین پرویز

    سیاہ راتوں کے بے اماں راستوں پہ چھٹکے ہوئے یہ چہرے

    کہ جیسے پت جھڑ میں بکھر گئے ہوں

    بس ان کی بے چین زخم خوردہ سی پتلیوں میں رقم ہے باقی

    جو گھومتی ہیں جو منتظر ہیں

    مرے زمانے میں پھل نہیں ہیں فقط اخزاں کے زوال ہیں اور ایسے طوفاں کہ دیکھتے دیکھتے ہزاروں

    درخت جڑ سے اکھڑ گئے ہیں امید نا آشنا دلوں میں

    جو درد ہے راز بن چکا ہے، جو لفظ ہیں اجڑ رہے ہیں

    مجھے اس اپنی خزاں میں جو چیز یاد ہے وہ ہر ایک راستے

    میں ان گنت پتلیوں کی گردش کا کرب جیسے

    ہزارہا موم بتیاں جو مرے بدن اور میری آنکھوں

    کو چھو کر کے بجھتی ہوں اور اندھیرے کو میرے اندر اتارتی ہوں

    یہ پتلیاں جن میں گھومتے اور ڈوبتے ہیں سبھی ستارے

    یہ آسمانوں کے تکنے والے تباہ چہرے

    نڈھال کے تجربے کو مرقعوں میں صف بہ صف منتظر ہیں مینہ کے

    جو ان کی پامالیوں کو دھو کر سفید کر دے

    جلے بجھے اور خام رنگوں کی چیقلش سے جگہ جگہ شق

    یہ مرگ انبوہ جس کی تا میں دبی ہوئی آگ کی حرارت

    ہے آخری فیصلوں کا موسم کہ آئینہ وار میں یہاں پہ

    خود اپنے چہرے کو ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں شاید کھو چکا ہوں

    شاید آج بھی

    صبح ہوئی اور نئی نئی امیدیں جاگیں

    شاید آج بھی سورج اپنی پوری تابانی سے چمکے

    شاید دل موہ لینے والی کوئی صورت جاتے جاتے

    مڑ کر دیکھے

    روکھی سوکھی بھی نعمت سے بڑھ کر مزہ دے

    شاید آج بھی کوئی مجھے پھر پاس بٹھا لے

    ان ہونی میراث یہی ہیں دنیا بھر کی معمولی باتیں

    ہر دن کتنا نیا مگر اتنا ہی پرانا

    وہی ہیں سارے رستے اور گردش میں آنکھیں

    سوئیاں اور مٹی کے پیالے

    سدا ہی منگتے ہاتھ کبھی نہ تھکتے پاؤں

    بر جوں والے شہر سبھی مکڑی کے جالے

    اور مٹی کی ننگی بھوکی صدیوں گاؤں

    شاید آج بھی پل دو پل کو

    دنیا کی ہر بات لگے جیسے ان مل بے جوڑ فسانہ

    آگ کی کونپل جیسی صبح میں

    کون سرہانے بیٹھا مجھ سے

    ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے

    کتنا روشن خواب یہ میرے ساتھ اٹھا ہے

    کہنے کو دیکھا ہے کیا کیا

    لیکن پھر بھی

    جانے کیا کچھ در پردہ ہے

    شاید آج سمجھ میں آئے کیا دیکھا ہے کیا دھوکا ہے

    کتنی امیدوں پر قائم

    ہے یہ دنیا اور یہیں پر

    کسی طرف کونوں کھدروں میں

    اپنی ہوا میں ہم بھی تم بھی

    جیسے آج ہو سب کچھ دائم

    ایک ذرا جی بہلا تو پھر کیا کیا کچھ لگتا ہے سچا

    سارے جال سہانے سارا یہاں کا کرنا بھرنا اچھا

    شاید آج بھی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے