دوسری نظم
سیاہ راتوں کے بے اماں راستوں پہ چھٹکے ہوئے یہ چہرے
کہ جیسے پت جھڑ میں بکھر گئے ہوں
بس ان کی بے چین زخم خوردہ سی پتلیوں میں رقم ہے باقی
جو گھومتی ہیں جو منتظر ہیں
مرے زمانے میں پھل نہیں ہیں فقط اخزاں کے زوال ہیں اور ایسے طوفاں کہ دیکھتے دیکھتے ہزاروں
درخت جڑ سے اکھڑ گئے ہیں امید نا آشنا دلوں میں
جو درد ہے راز بن چکا ہے، جو لفظ ہیں اجڑ رہے ہیں
مجھے اس اپنی خزاں میں جو چیز یاد ہے وہ ہر ایک راستے
میں ان گنت پتلیوں کی گردش کا کرب جیسے
ہزارہا موم بتیاں جو مرے بدن اور میری آنکھوں
کو چھو کر کے بجھتی ہوں اور اندھیرے کو میرے اندر اتارتی ہوں
یہ پتلیاں جن میں گھومتے اور ڈوبتے ہیں سبھی ستارے
یہ آسمانوں کے تکنے والے تباہ چہرے
نڈھال کے تجربے کو مرقعوں میں صف بہ صف منتظر ہیں مینہ کے
جو ان کی پامالیوں کو دھو کر سفید کر دے
جلے بجھے اور خام رنگوں کی چیقلش سے جگہ جگہ شق
یہ مرگ انبوہ جس کی تا میں دبی ہوئی آگ کی حرارت
ہے آخری فیصلوں کا موسم کہ آئینہ وار میں یہاں پہ
خود اپنے چہرے کو ڈھونڈھتا پھر رہا ہوں شاید کھو چکا ہوں
شاید آج بھی
صبح ہوئی اور نئی نئی امیدیں جاگیں
شاید آج بھی سورج اپنی پوری تابانی سے چمکے
شاید دل موہ لینے والی کوئی صورت جاتے جاتے
مڑ کر دیکھے
روکھی سوکھی بھی نعمت سے بڑھ کر مزہ دے
شاید آج بھی کوئی مجھے پھر پاس بٹھا لے
ان ہونی میراث یہی ہیں دنیا بھر کی معمولی باتیں
ہر دن کتنا نیا مگر اتنا ہی پرانا
وہی ہیں سارے رستے اور گردش میں آنکھیں
سوئیاں اور مٹی کے پیالے
سدا ہی منگتے ہاتھ کبھی نہ تھکتے پاؤں
بر جوں والے شہر سبھی مکڑی کے جالے
اور مٹی کی ننگی بھوکی صدیوں گاؤں
شاید آج بھی پل دو پل کو
دنیا کی ہر بات لگے جیسے ان مل بے جوڑ فسانہ
آگ کی کونپل جیسی صبح میں
کون سرہانے بیٹھا مجھ سے
ہنس ہنس کر باتیں کرتا ہے
کتنا روشن خواب یہ میرے ساتھ اٹھا ہے
کہنے کو دیکھا ہے کیا کیا
لیکن پھر بھی
جانے کیا کچھ در پردہ ہے
شاید آج سمجھ میں آئے کیا دیکھا ہے کیا دھوکا ہے
کتنی امیدوں پر قائم
ہے یہ دنیا اور یہیں پر
کسی طرف کونوں کھدروں میں
اپنی ہوا میں ہم بھی تم بھی
جیسے آج ہو سب کچھ دائم
ایک ذرا جی بہلا تو پھر کیا کیا کچھ لگتا ہے سچا
سارے جال سہانے سارا یہاں کا کرنا بھرنا اچھا
شاید آج بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.