احتجاج
مجھے تیری محبت کی قسم ایسا نہ ہونا تھا
غم درماں کثیر اور درد کم ایسا نہ ہونا تھا
امیروں کو نصاب سیم و زر مفلس تہی دامن
ترا دست کرم ابر کرم ایسا نہ ہونا تھا
کہیں دہقاں کے سینے پر ہیں مہریں فاقہ مستی کی
کہیں تخت سکندر جاہ جم ایسا نہ ہونا تھا
کہیں چنگیز کے ہونٹوں پہ موج خندۂ رنگیں
کہیں مظلوم کی آنکھوں میں نم ایسا نہ ہونا تھا
جبین شوق کو سجدوں سے فرصت ہی نہیں ملتی
کم از کم حسن کا نقش قدم ایسا نہ ہونا تھا
ریا کاری کا پرچم لہلہائے خانقاہوں پر
نگوں سر عشق و مستی کا علم ایسا نہ ہونا تھا
ہزاروں سال گزرے ہیں ابھی تک تیری دنیا میں
وہی ہنگامۂ لا و نعم ایسا نہ ہونا تھا
لطافت بے کثافت کچھ نہیں مانا مگر یا رب
صنم خانے میں بنیاد حرم ایسا نہ ہونا تھا
اگر پیدا ہی کرنا تھا مجھے بے حس غلاموں میں
تو پھر میری نوا کا زیر و بم ایسا نہ ہونا تھا
مجھے پاس عبودیت ہے لیکن یہ بھی کہنے دے
جہاں تیری خدائی کی قسم ایسا نہ ہونا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.