ایک عام سی لڑکی
وہ ایک عام سی لڑکی ہے دیکھ کر جس کو
نہ جانے کیوں مجھے ایسا خیال آتا ہے
کہ اس کے ہنسنے کا انداز یہ بتاتا ہے
ہوئی نہیں ہے غم دل سے رسم و راہ ابھی
پڑی نہیں ہے کوئی چوٹ ابھی رگ جاں پر
کسی نگاہ سے الجھی نہیں نگاہ ابھی
وہ ایک عام سی لڑکی اک ایسا جذبہ ہے
ملی نہیں جسے الفاظ میں پناہ ابھی
وہ ایک عام سی لڑکی ہے جیسے چھائی ہوئی
مرے جوان خیالوں پہ بے خودی کی طرح
خیال آتا ہے اک پھول بننے والی ہے
وہ کمسنی جو ہے منہ بند سی کلی کی طرح
جو رنگ بن کے ہے محبوس اس کے پیکر میں
وہ بوئے حسن تو پھیلے گی روشنی کی طرح
وہ ایک عام سی لڑکی ہے جس کے سادہ نقوش
چمک اٹھیں گے محبت کی سرد آہوں سے
جہاں پہ پھول تو کیا دل بجھے ہوئے ہوں گے
گزرنے والی ہے وہ ان حسین راہوں سے
ابھی تو خیر سے معصومیت ٹپکتی ہے
مگر شراب بھی ٹپکے گی ان نگاہوں سے
وہ ایک عام سی لڑکی ہے جس کے بارے میں
نہ جانے ذہن میں آتے ہیں کیوں خیال کئی
مگر بڑے ہی تحیر سے آج صبح کے وقت
سنی ہے میں نے محلے میں ایک بات نئی
گزشتہ شب کو وہی ایک عام سی لڑکی
خود اپنے گھر کے ملازم کے ساتھ بھاگ گئی
- کتاب : Sangam (Pg. 47)
- Author : Naresh Kumar Shad
- مطبع : New Taj Office,Delhi (1960)
- اشاعت : 1960
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.