ایک درخت
اس نے اپنے دل کی کالی دھرتی پر ایک درخت اگایا تھا
پہلے اس پر امیدوں کے پھل آتے تھے
اس کی شاخیں خوشبوؤں کے پتوں سے بھر جاتی تھیں
یادوں کی خوشبوئیں فضا میں بکھر جاتی تھیں
کبھی کبھی راتوں کی مایوسی کی شبنم
سارے درخت کو دھو دیتی تھی
پھولوں میں نوکیلے کانٹے بو دیتی تھی
پھر بھی میں دنیا کی جلتی دھوپ سے گھبرا کر
اکثر اس کے سائے میں آ جاتا تھا
سکھ پاتا تھا
لیکن اب یہ درخت تو جیسے سنگ سفید کا ہے
اس کی شاخیں دودھیا دھات کی ہیں
اب اس پر ٹیڑھے میڑھے مخروطی اور مربع شکلوں والے
لوہے کے پھل آتے ہیں
اس کا سایہ گرم دہکتے انگاروں کی آگ ہے
اس کی خوشبو بہتے خون کا راگ ہے
میرے دل کی مٹی پر اب کوئی درخت نہیں ہے ناگ ہے
پھن پھیلا کر بیٹھا ہے اور اپنے جسم کو ڈستا ہے
جسم اب اس کا جسم نہیں ہے
پیلے خون کا رستہ ہے
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 794)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.