اذیت ناک اس گاڑی کا انداز روانی ہے
بڑی دل دوز اس کے ہر مسافر کی کہانی ہے
سفر کی ہر صعوبت اک بلائے ناگہانی ہے
نہ روٹی ہے نہ سالن ہے نہ چائے ہے نہ پانی ہے
یہ ڈیزل کی بجائے ہر قدم پر جان کھاتی ہے
جوانی آدمی کی راستے میں بیت جاتی ہے
یہاں گل خان جتنے ہیں وہ سب پرجوش بیٹھے ہیں
مگر پنجاب کے جو لوگ ہیں خاموش بیٹھے ہیں
کئی کچھ ہوش میں ہیں اور کچھ بے ہوش بیٹھے ہیں
کئی نعرہ بلب ہیں اور کفن بر دوش بیٹھے ہیں
ہے بھیڑ اتنی کہ عزرائیل سے در تک نہیں ہلتا
اسے بوگی میں گھسنے کا کوئی رستہ نہیں ملتا
یہاں ایمان کی دولت بھی ہے اک جنس بے مایہ
نکل جاتا ہے ہر اک دل سے غم خواری کا سرمایہ
حقیقت میں یہ راز اب تک سمجھ کوئی نہیں پایا
گیا اک بار جو بیت الخلاء میں پھر نہیں آیا
جو تھی جائے فراغت بن گئی جائے اماں شاید
یہی ہے گوشۂ محفوظ زیر آسماں شاید
ترس آتا ہے رہ رہ کر مجھے ان نا توانوں پر
پڑے ہیں بوجھ بن کر جو تھکے ہارے جوانوں پر
سلاخوں سے چمٹ کر جو کھڑے ہیں پائدانوں پر
ہیں ان کی خانہ بربادی کے قصے آسمانوں پر
ہر اک جھٹکے پہ ٹانگیں کانپتی ہیں دم نکلتا ہے
سنبھل کر کوئی گرتا ہے کوئی گر کر سنبھلتا ہے
وہی گاڑی پہ قابض ہے اسی کا بول بالا ہے
وہ جس نے اپنے اک ساتھی کا کرتا پھاڑ ڈالا ہے
ٹفن کھانے کا جس نے اپنے ہاتھوں میں سنبھالا ہے
سمجھ لو فاقہ مستوں کے لئے وہ تر نوالہ ہے
کمر باندھے ہوئے لڑنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
جو اپنے ہیں جھپٹنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں
جو راہی ریلوے احکام کی تعمیل کر بیٹھے
وہ اپنے غم کی دوران سفر تکمیل کر بیٹھے
سکون قلب اپنا واصل تعجیل کر بیٹھے
کئی خوش بخت اپنی بیویاں تبدیل کر بیٹھے
مرا بیٹا شکورے کا نواسا بن کے بیٹھا تھا
جو میرا تھا کبھی اس کا اثاثہ بن کے بیٹھا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.