ایک عرصے سے سوچ رہی ہوں
کہ تم کو خط لکھوں
لیکن کیا لکھوں
یہی کہ اندھیرے کے بادل چھٹ نہیں رہے ہیں
یا یہ لکھوں کہ
خوف و دہشت کے سائے
کس طرح کم نہیں ہو رہے ہیں
ہر طرف چیخیں کراہیں لاشیں دھواں
سسکتی جوانی بلکتی ممتا
گم صم بچپن
یا پھر بیروت کی کہانیاں لکھوں
کشمیر کی سلگتی وادیوں کی داستان لکھوں
بھاگل پور کو موضوع قلم ٹھہراؤں
یا سری نکا کے فسانے لکھوں
اس لئے کہ
پنجاب میں تو حادثوں کا ہونا ویسے ہی ضروری ہے
جیسے صبح کا ہونا
اب میں تم کو تب خط لکھوں گی
جب ہر سمت سے فرحت بخش ہوائیں آئیں گی
خوشی کے پیغام لائیں گی
سنہری دھوپ میں امن کی دیوی
اپنا آنچل لہرائے گی
گولیوں کی پر ہول آوازیں
کوئل کے سریلے نغموں میں بدل جائیں گی
لوگوں کے ذہنوں سے نفرتوں کے بادل چھٹ جائیں گے
تب میں تم کو خط لکھوں گی
کہ میں بہت خوش ہوں
امید کہ تم بھی خوش ہو گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.