ایک نظم بیٹے کے لئے
تمہیں یاد ہے
میری آنکھوں پر کس کر باندھا گیا
وہ اپنا رومال
پھولوں میں درختوں کے جھنڈ کے درمیاں
اسٹور روم میں کھمبوں کے پیچھے
کبھی پلنگ کے نیچے
چھپتے پھرتے تھے تم
میں کہاں ہوں مجھے ڈھونڈو
میرے آگے پیچھے دوڑتی بھاگتی تمہاری آوازیں
مجھے چھو چھو کر دور ہو جاتی تھیں
میں اپنا ہاتھ پھیلائے ڈھونڈ ڈھونڈ کر
تمہیں پا ہی لیتی تھی
یہ ہمارا من پسند کھیل تھا
نہ جانے کب کیسے اور کہاں کھیل ہی کھیل میں
یا تمہارے دوڑتے بھاگتے قدموں کے غبار میں
تم کہیں کھو گئے
اور میرے گلے میں اٹکی رہ گئی
بس ایک دھول
کھانس کھانس کر صاف کرتی ہوں
نکلتی ہی نہیں
اٹا پڑا ہے میرا چہرہ گرد سے
آئنہ دیکھوں تو سمجھ میں نہیں آتا کسے دیکھ رہی ہوں
اپنی آنکھوں پر بندھا رومال
میں نے اپنے ہی ہاتھوں کھولا تھا
اور احتیاط سے باکس میں رکھ دیا تھا
میں کہاں ہوں مجھے ڈھونڈ لو والا کھیل
کھیلنے والا کوئی تھا ہی نہیں
مگر آج میری گود میں تمہارا بچہ
مجھ سے مانگ رہا ہے وہی رومال
آج نکالوں گی اسے دھو صاف کر کے
اپنے سینے کی خوشبو سے بساؤں گی
کہ پھر شروع کرنا ہے مجھے وہی من پسند کھیل
اور اس بار میں کھو جاؤں گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.