فضا میں اک سکون تھا
ہر طرف سہمے ہوئے سے زرد چہرے
پیاس کے مارے زمیں پر گر رہے تھے
اور کچھ بے رحم داتا
بے بسی کا یہ تماشا
دیکھ کر خوش ہو رہے تھے
گرم پیاسی ریت پر بیٹھے ہوئے
سارے کسی کے منتظر تھے
وقت کے داتا سبھی
خود ساختہ خولوں میں لپٹے سو رہے تھے
اور باہر
پیاس کا صحرا مسلسل منہ چڑھاتا تھا
کہ اتنے میں
اسی صحرا کی قسمت کھل گئی
پھر
ایک چشمہ پھوٹ کر
صحرا کی تپتی ریت پر
بہنے لگا اک داستاں کہنے لگا
چھوٹے بڑے پتھر بکھر کر ریزہ ریزہ ہو گئے
ساری پرانی گرد پل میں بہہ گئی
اور صرف پانی کی روانی رہ گئی
جو سارے بھاری اور بوسیدہ بتوں کو بھی
بہا کر لے گئی
چاروں طرف اک روشنی پھیلی
سبھی چہروں نے سکھ کا سانس پایا
اور اک خوش کن سفر کے خواب دیکھے
اور پھر
اک سازشی لمحہ
بدن پر ظلم کی سنگیں قبا پہنے
بہیمانہ رعونت سر پہ رکھے
اپنے بھاری بھاری بوٹوں میں
ہماری عمر بھر کی محنتوں اور خواہشوں کے
اس اجالے کو چرا کر لے گیا
جو سینکڑوں تاریک لمحوں کے
سمندر سے ہمیں حاصل ہوا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.