ایک نظم
میں نے ڈھونڈا تمہیں لمحوں کے سیہ خانے میں
سرمگیں رات کا لرزیدہ ستارہ جیسے
عمر جس کی ہو بس اک شب کی پریشاں نظری
تم نے دیکھا مجھے
ایام کے چٹخے ہوئے آئینے میں
شمع خود سوختہ کی طرح
پگھلتے ہوئے لمحہ لمحہ
برق پا وقت کی ہر موج ہے
خاشاک ہیں یہ شام و سحر یہ مہ و سال
کوئی لرزیدہ ستارہ
کوئی ہر لحظہ پگھلتی ہوئی شمع ہستی
رات کی بانہوں میں
چند دہکے ہوئے انگاروں کی سوغات لیے
کسی مقسوم کسی معنیٔ موہوم کا رشتہ ڈھونڈیں
یہ بھی ممکن نہیں
یہ بھی نہیں تقدیر وجود
برق پا وقت کی ہر موج ہے
سیماب سے اصنام ترشتے ہیں کہاں
حلقہ در حلقہ حبابوں ہی کی زنجیریں ہیں
کیا کسی خواب کے چہرے سے اٹھائے کوئی سنگین حقیقت کی نقاب
کیوں کسی برق صفت لمحے کا دامن تھامے
کس لئے کھوئے ہوئے وقت کا ماتم
کہ یہ ماتم کدہ فردا بھی ہے امروز بھی
دیروز بھی ہے
- کتاب : 1971 ki Muntakhab Shayri (Pg. 43)
- Author : Kumar Pashi, Prem Gopal Mittal
- مطبع : P.K. Publishers, New Delhi (1972)
- اشاعت : 1972
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.