دن ڈھلا
شام ہوئی
شہر نا پرساں کی منحوس گھڑی
قصہ گو قتل ہوا شام ہوئی
سرخ اینٹوں کی حویلی کہ بڑی دل کش تھی
آج تاراج ہوئی
ایک الزام تھا گستاخی کا
اور بلوائی ہزاروں میں
وہاں خون کی بو سونگھتے آ پہنچے تھے
لشکری اپنی کمیں گاہوں میں محفوظ کھڑے ہنستے تھے
گرگ آوارہ کو اک لقمۂ تر ڈالتے تھے
سرخ اینٹوں کی حویلی میں نقب لگتا تھا
چوب داروں کو نیا حکم یہ تھا
اس قدر زور سے نقارا بجے
کوئی بھی چیخ
کوئی آہ
سماعت کے قریب آ نہ سکے
خلقت شہر کہ آزردہ و بیمار و نحیف
اپنی قسمت پہ بس افسوس کیا کرتی تھی
ہاں کسی کو بھی یہ معلوم نہ تھا
شہر نا پرساں کی آشوب زدہ گلیوں میں
وقت کی دھول جمے گی
تو کئی قصہ گو
اس کہانی کو پھر اک بار سنانے کے لیے اتریں گے
شہر نا پرساں کی منحوس گھڑی
قصہ گو قتل ہوا
شام ہوئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.