ایک ریاضت یہ بھی
وہی دریا کنارے
روز اپنی بانس کی بنسی لیے بیٹھا ہوا وہ شخص
کتنی بے نیازی سے
ہر اک لمحہ کو اپنی خوش دلی سے داد دیتا ہے
کہ جس کے روئے روشن پر قناعت مورچھل جھلتی ہوئی موتی لٹاتی ہے
سحر تا شام لہروں سے وہ اپنی بات کہتا ہے
ہواؤں کی مدھر سرگوشیوں پر کھلکھلاتا ہے
پرندوں کے سہانے چہچہوں پر جھوم اٹھتا ہے
کسی آواز کی آہٹ پہ کجری گنگناتا ہے
مگر اس کی نظر ڈوری کی ہر جنبش پہ رہتی ہے
کوئی مچھلی پھنسی تو اس کے سینے میں
کئی رنگوں کی صبحیں دفعتاً مرپاش ہوتی ہیں
مگر ایسا بھی ہوتا ہے
کسی دن ہاتھ خالی اپنے گھر وہ لوٹ جاتا ہے
کئی معصوم آنکھیں جب سوالی بن کے اٹھتی ہیں
وہی مانوس سی اک مسکراہٹ اس کے چہرے کی
کسی ننھی سی مچھلی کی طرح اک جست لیتی ہے
شکستہ جھونپڑے میں ایک بجلی کوند جاتی ہے
- کتاب : doob (Pg. 99)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.