ایک سوال
قصہ ہے یہ دو سال پہلے کا
اک معصوم سی بچی کے بچپنے کا
پوچھا مجھ سے بیٹی کی بیٹی نے
یعنی پیاری سی اک نواسی نے
نانو کبھی جاڑوں میں کبھی گرمی میں
اور کبھی تیز موسلا دھار بارش میں
کیا کیا کہانیاں آپ مجھے سناتی ہیں
سنتے سنتے میں کبھی سو جاتی ہوں
کبھی محو حیرت بنی تخیل میں کھو جاتی ہوں
میرا ننھا سا ذہن مایوس سا رہ جاتا ہے
قصۂ یوسف کی زلیخا تو بالکل ہی بھاتی نہیں
ہاں یوسف کی محبت میں ان کے بابا کا رونا دل دکھاتا ہے
کشتیٔ نوح میں جانوروں کا ہجوم اف اللہ
موسیٰ کی چھڑی سانپ بن جانا بہت ڈراتا ہے
آج موسم تو بڑا گرم ہے اور بجلی بھی گل
میں آج آپ سے اک سوال پوچھتی ہوں نانو
دنیا گر نہ گھومتی تو یہ موسم گرما کیسے آتا
باغ میں پھولوں کی بہار سردیوں میں ہی کیوں آتی ہے
جنت کا منظر تو بڑا خوش نما بتایا آپ نے
اللہ تو بڑا رحیم و کریم ہے تو پھر جہنم کیوں بنائی
جستجو ہے یہ مجھے کہ آدم و حوا جو دنیا میں آئے
کون سی رت چل رہی تھی اور کون سا تھا موسم
زمیں تپ رہی تھی یا سردیوں کی تھی ٹھنڈی رات
چل رہی تھی پت جھڑ کی گرم ہوائیں یا تھا سرسبز موسم برسات
سوچ کر میرے ان سوالوں کا جواب بتائیں
تب پھر آپ اس قصہ کو آگے بڑھائیں
ان قصوں کی حقیقت میں میں بہت کھو جاتی ہوں
اسی لئے ٹی وی کھول رنگینیوں میں گم ہو جاتی ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.