ایک شاعر کا خواب
کہیں اک شب جو اپنے بستر راحت پہ جا لیٹا
رہا ہے چین تھوڑی دیر آنکھیں لگ گئیں آخر
بلا کا خواب راحت میں مجھے منظر نظر آیا
قلم میں یہ کہاں طاقت کہ اس کو کر سکے ظاہر
نظر آیا مجھے میدان جس میں ہو کا عالم تھا
نہ اپنا ہم سفر کوئی نہ اپنا کوئی ہم دم تھا
درختوں کے نشاں کچھ تھے مگر سیل حوادث سے
کچھ ایسے مٹ چلے تھے یہ سمجھنا سخت مشکل تھا
کہ یہ تھے کون سے اشجار کیسے پھل یہ لاتے تھے
کوئی چشمہ رواں تھا یا کہ بہتا تھا کوئی دریا
کبھی یہ اپنی سرسبزی کا عالم بھی دکھاتے تھے
کہ ایسے ہی ہمیشہ خشک لکڑی کے یہ تودے تھے
مکانوں کا یہ عالم تھا کہ کہنہ اور شکستہ تھے
کہیں دیوار باقی تھی کہیں اس کا نشاں باقی
چھتوں کی منہدم صورت یہ کہتی تھی کہ پختہ تھے
مگر ایسی تباہی تھی کہ چھت کا تھا گماں باقی
الٰہی خیر کرنا سخت الجھن تھی کہاں پہنچا
نظر آتی خرابی ہی خرابی تھی جہاں پہنچا
ذرا آگے بڑھا دیکھا ریگستان سارا تھا
جہاں میں تھا کچھ اس سے دور ہی بجلی سی چمکی تھی
کنواں جو تھا وہ بالکل خشک سوکھا سارا دریا تھا
حرارت دھوپ میں ایسی زمیں ساری دہکتی تھی
کہاں ابر کرم اک قہر کا خورشید تاباں تھا
ہوائے تند تھی اک سمت لہراتا بیاباں تھا
مجھے حیرت تھی اتنے میں ندا یہ غیب سے آئی
کہ او آوارۂ غربت بنا کیوں تو ہے آئینہ
نہیں اس سرزمیں میں سے کیا تجھے کچھ بھی شناسائی
ارے یہ وہ زمیں ہے جس پہ تھا فردوس کا دھوکا
یہی ہے وہ زمیں علم و عمل کی جس کا چرچا تھا
یہیں سے علم دیں یونانیوں نے آ کے سیکھا تھا
یکایک اس پہ پھیلی وہ ہوا بغض و عداوت کی
کہ بھائی کو ہوئی بھائی سے بے حد دشمنی پیدا
نہ اپنوں میں رہی الفت نہ یاروں میں شناسائی
خودی کی آگ نے ہر فرد میں کی خود سری پیدا
جلا کر جس نے دیکھو ان کو آخر خاک کر ڈالا
مٹا کر ان کو مثل خس جہاں کو پاک لا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.