ایک شوہر کا تعارف
وہ ستم ایجاد ہے وہ بانیٔ بیداد ہے
حسرتوں کا خون کرتا ہے بڑا جلاد ہے
بے مروت ناوک افگن کا کوئی کیا دے نشان
نام اس بے درد کا مشہور اب صیاد ہے
دام بے دانہ کا پھیلاتا ہے ایسے جعل سے
طائر دل آ کے خود پھنستا ہے وہ صیاد ہے
ذبح کر ڈالا کسی کو نیم بسمل کر دیا
کوئی تنہا ہے قفس میں بند خود آزاد ہے
کند ہو کتنی چھری رک رک کے گردن پر چلے
حکم ہے لیکن نہ سننے پائیں ہم فریاد ہے
برگ گل کو روند ڈالا جب خرام ناز سے
بلبلیں چلا اٹھیں فریاد ہے فریاد ہے
ظلم بے انداز کرتا ہے نئے انداز سے
پھر مزہ یہ ہے اسیروں کو اسی کی یاد ہے
چال اس کی کوئی شاطر تک سمجھ سکتا نہیں
کہتے ہیں سب اپنے فن کا ایک ہی استاد ہے
دل میں کچھ عصیاں کا کھٹکا ہے نہ خوف باغباں
اور طرہ ہے کہ ہتھکنڈوں پہ اپنے شاد ہے
حکمراں فضل خدا سے اک وسیع گلشن کا ہے
رحمت باری ہے نازل ہر طرح آباد ہے
نغمہ سنجی ہوتی ہے اکثر تو اس حسرت کے ساتھ
وہ مبارک ہیں کہ جن پر مہرباں صیاد ہے
ہم صفیروں سے حیا مانع ہے عرض حال سے
سب کہیں گے قید میں کتنی زباں آزاد ہے
کوئی کیوں ہم جنس کے ظلم و تشدد پر کڑھے
ورنہ روداد قفس ہم کو سرے سے یاد ہے
ایک دل اور مشکلیں اتنی کہ مشکل ہے بیاں
یا علیؑ آسان کیوں کر ہوں دم امداد ہے
قید غم سے مرغ دل کو کیجیے جلدی رہا
بے طرح اب میمؔ کا مضطر دل ناشاد ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.