ایک سور سے
وہ طلسمی دوپہر تھی
سانس لیتے گھاس کے میدان میں
سبز مٹی سے شعاعیں اگ رہی تھیں
اور تم کرنوں میں
اپنے تھوتھنے گاڑے ہوئے
دندناتے پھر رہے تھے
میں تمہاری جان کا دشمن
انا کے ہش پپی جوتے پہن کر
اپنے کینے کا نیا کمپا لیے
برتری کے بنچ پر
محجوب سا بیٹھا ہوا
اک پرانے جھوٹ سے
دامن چھڑانا چاہتا تھا
میں نے دھیرے سے تمہیں آواز دی۔۔۔
آواز دی تو
اپنی ٹیڑھی میڑھی آنکھوں سے
مجھے تم نے عجب عالم میں دیکھا تھا کہ بس
میں جی پڑا تھا
میری آنکھیں جگمگا اٹھی تھیں
میرے اندر تتلیاں اڑنے لگی تھیں
اور ملن کی اس گھڑی میں
اس سنہرے دن کے پس منظر میں
تم حیراں سے
اپنی دھن میں
اپنی جاوداں بد صورتی میں
ایک چیتے کی طرح سے خوبصورت لگ رہے تھے
ڈرتے ڈرتے
حیرتی رڈ انڈین امریکیوں کی طرح
دھرتی کی دھمک سنتے ہوئے
تم پاس آئے
پاس آکر بے یقینی سے مجھے تکنے لگے تھے
میں تمہیں تسکین دینا۔۔۔
۔۔۔پھر سے بھل منسی کا رشتہ جوڑ لینا چاہتا تھا
اور اپنے سنگ بستہ ہاتھ سے
جب تمہیں سہلا رہا تھا
اور تمہارے کھردرے بالوں میں
اپنی انگلیاں الجھا رہا تھا
ایک البیلی مسرت
اک نئی لذت ملی
وہ جو نفرت کی کمانی
دل کی تہہ میں گڑ گئی تھی
ٹوٹتی جاتی تھی
میرے اندر کی کلیں کھلنے لگی تھی
میں پگھلتا جا رہا تھا
وہ ہماری دوستی۔۔۔
وہ ہماری فتح مندی کا جنم دن۔۔۔
وہ طلسمی دوپہر۔۔۔
۔۔۔سانس لیتے گھاس کے میدان میں
سبز مٹی سے شعاعیں اگ رہی تھیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.