زمین گردش میں ہے
اور دنیا سفر میں
اور اب موسم ایسے اڑا جاتا ہے
جیسے حسرتوں کا صحرا ہو
جہاں قدموں کے نشان ملیں نہ خیموں کے
جسے ان ریگزاروں میں بچھڑنے کا شوق ہو
اپنی رفتار لے کر چلے اپنا ستارہ لے کر چلے
بادبان رقص میں ہے
اور کشتی بھنور میں
اور اب وقت ایسے اڑا جاتا ہے
جیسے ریت کا سمندر ہو
جہاں سکوت کی لذت ملے نہ سائے کی
جسے ان سرابوں میں بکھرنے کا شوق ہو
اپنی چھاؤں لے کر چلے اپنا کنارہ لے کر چلے
روح سفر میں ہے
اور یادیں قبر میں
اور اب طلسم موت کا ایسے کھلا جاتا ہے
جیسے گھر کا آخری دروازہ ہو
جہاں حجتوں سے اماں ملے نہ دلیلوں سے
جسے ان آسمانوں میں بھٹکنے کا شوق ہو
اپنی سرکشی لے کر چلے اپنا اندھیرا لے کر چلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.