اس کون و مکاں کی دہلیز عبور کرنے سے پہلے
شرابور بدن کو پونچھے بغیر اپنی مصیبتوں کا زمیں ایسا بوجھ اتارے بغیر
ہم اپنے لہو کا محصول ادا کر چکے ہیں
ہم جو ستارہ شناس ہیں ہم جو پرندوں کی یک اڑان سے موسموں
کا مزاج بھانپ لیتے ہیں ہم جو آئینوں میں چٹختی ہوئی تہذیبوں کی تشخیص کا راز
جانتے ہیں جو رک رک کر چلتی ہواؤں سسکتے سمندروں کے شور سے
گلیوں میں ہجوموں کی آہ و بکا سے بھیانک خوابوں سے اوجھل تعبیروں
سے ماورا مقدروں اور سلطنتوں کا قیافہ لگاتے ہیں
لیکن اپنے بارے میں کچھ بھی نہ جانتے ہوئے ایک مفتوح کی طرح
تاریخ کے ایک مفرور کی طرح تھکے ہارے دریدہ کپڑوں میں ملبوس بدن
پر زخموں کی مہر لئے شکستہ برہنہ شمشیر کا سہارا لئے اس دہلیز کو عبور
کرتے ہیں
آہ ہم نے قدیم تہذیبوں میں نئے تمدنوں میں اسلحے کے
کارخانوں میں رسوا عورتوں کے شبستانوں میں بنکوں کی تجوریوں میں
مدرسوں کے معلموں کی آوازوں میں پناہ لی
لیکن ہمارے لئے کہیں بھی جائے پناہ نہیں تھی کہ ہر لمحے ہمارے قیام
کا راز دوسرے کے لئے اضطراب بن جاتا
کون جانتا ہے کہ اس دہلیز کے پار کتنی تنہائیاں ہمیں
مسمار کرنے کے لئے ہمیں دیوانگی کی خلعت دینے کے لئے انتظار
میں ہیں
ہم بھیس بدل چکے ہیں کہ بد نصیبی ہمارے تعاقب میں خاک اڑاتی ہوئی
ہمارے نقش پا کی زنجیر جوڑتے ہوئے پھر ہمیں حصار میں نہ لے سکے
اور ہم لمحہ بھر کے لئے اپنی بحالی کی خاطر پھڑپھڑاتے نقشہ پرچہ
پر اضطراب رکھے ہوئے کوتاہیوں کو قوت میں بدلنے کی سوچ میں غلطاں ہیں
لیکن دوسرے پتھروں پر گھوڑوں کے سم چنگاریاں برساتے
ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور ہمارے ترکش میں صرف ایک ہی تیر ہے
اپنے لئے اور ان کے لئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.