ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی
میں گیا اس طرف
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
بند مجھ پر ہوئے سارے در
سارے گھر
میں گیا اس طرف
جس طرف تیر تھے
جس طرف گھات تھی
مجھ پہ مرکوز تھی اک نگاہ سیہ
اور عجب زاویے سے
بنائے ہوئے تھی مجھے
سر سے پا تک ہدف
میں گیا اس طرف
جس طرف ریت کی لہر تھی
موج ذرات تھی
میں نہیں جانتا
اس گھڑی
تیرگی کے طلسمات میں
جو اشارہ ہوا
کس کی انگلی کا تھا
اور جو کھولی گئی تھی مرے قلب پر
کون سی بات تھی
صرف اتنا مجھے یاد ہے
جب میں آگے بڑھا
ایک زنجیر گریہ مرے ساتھ تھی
میں پرندہ بنا
میری پرواز کے دائرے نے جنا
ایک سایہ گھنا
کشف ہونے لگا
میں ہرے پانیوں میں
بدن کا ستارہ ڈبونے لگا
اور اک لا تعین سبک نیند سونے لگا
اک اڑن طشتری بن گئی سائباں
میں جہاں تھا وہاں تھا کہاں آسماں
ایک شعلہ تھا بس میرے ہونٹوں سے لف
میں گیا اس طرف
جس طرف جسم و جاں کی حوالات تھی
جس طرف نیند تھی
جس طرف رات تھی
چار جانب بچھی تھی بساط عدم
درمیاں جس کے
تنہا مری ذات تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.