فن
ایک رقاصہ تھی کس کس سے اشارے کرتی
آنکھیں پتھرائی اداؤں میں توازن نہ رہا
ڈگمگائی تو سب اطراف سے آواز آئی
''فن کے اس اوج پہ اک تیرے سوا کون گیا''
فرش مرمر پہ گری گر کے اٹھی اٹھ کے جھکی
خشک ہونٹوں پہ زباں پھیر کے پانی مانگا
اوک اٹھائی تو تماشائی سنبھل کر بولے
رقص کا یہ بھی اک انداز ہے اللہ اللہ
ہاتھ پھیلے ہی رہے سل گئی ہونٹوں سے زباں
ایک رقاص کسی سمت سے ناگاہ بڑھا!
پردہ سرکا تو معاً فن کے پجاری گرجے
''رقص کیوں ختم ہوا؟ وقت ابھی باقی تھا''
- کتاب : kulliyat-e-ahmad nadiim qaasmii (Pg. 228)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.