فنا کا سفر
اس کی خواہش کا اظہار
معصوم حد تک روایت کی بندش میں الجھا ہوا تھا
کہ میں اس کے ہاتھوں پہ مہندی لگاؤں
مگر شاعری ایک دیوی ہے جس کی جلن کو
کبھی لکھنے والوں کے ہاتھوں پہ اتنا ترس ہی نہیں آ سکا ہے
کہ باغی دماغوں میں بھی عام رستوں کی تقلید بھرتی
یا ہاتھوں کی جنبش خرد کے تسلط سے آزاد کرتی
مرے ہاتھ بھی ذہن میں گھومتے کچھ سوالوں کے سانچے بنانے لگے
اس کے ہاتھوں پہ مہندی سے ایٹم کے ماڈل بنانے لگے
اور ماڈل بھی ایسے جو متروک تھے
جس میں ذرہ بہت دور سے گھومتا جھومتا دائرہ دائرہ
رفتہ رفتہ کسی مرکزے کی طرف گامزن
بس تسلسل سے بڑھتی ہوئی اک کشش کے اثر میں رہے
اک یقینی فنا کے سفر میں رہے
سالہا سال چیزیں بدلتی گئیں
وقت نے درد کے جو بھی لیرکس لکھے ان کو گانا پڑا
جانے کیسے مگر
اس کو جانا پڑا
میں نے ویسے تو یہ عمر بھر سوچنا ہی نہیں تھا
مگر شاعری ایک دیوی جلن
ناسٹیلجک زمانوں کی تصویر لاجک کے کچھ مسئلے
پوچھنے لگ گئے ہیں
بھلا ایسا جاہل کہاں پر ملے گا
کہ جو کیمیا پڑھ کے بھی
اک تعلق میں پہلے تو ذرہ بنے
اور نبھاتے ہوئے
ڈائنیمکس کے وہ ہی متروک ماڈل چنے
اور تسلسل سے بڑھتی ہوئی اک کشش کے اثر میں رہے
اک یقینی فنا کے سفر میں رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.