فریب اور فریب کے درمیاں
مطربہ ساز اٹھا شور شکیبائی کر
آ کہ ہر ساعت کم یاب غنیمت جانیں
مطربہ ساز اٹھا مجھ کو مگر نے دے دے
میرے احساس کو نازک سی کوئی شے دے دے
تیری خوددار طبیعت کا تقاضا ہے یہی
آج کی رات یہ معلوم ہوا
میرا ماضی مرے اوہام سے زیادہ تو نہیں
مجھ کو یہ وہم تھا ہر شے کو مری حاجت ہے
مجھ کو یہ وہم تھا ہر شے سے مجھے الفت ہے
مجھ کو یہ وہم تھا میں عالم موجود کا مستقبل ہوں
اس کے برعکس
طبع انسان سے برگشتہ ہوں
اپنی ضد آپ ہیں اوہام مرے مذہب کے
میں بھی مجموعۂ ازداد بنا بیٹھا ہوں
مجھ کو یہ وہم ہے ہر چیز یہاں فانی ہے
مجھ کو یہ وہم ہے میں خود بھی فسانہ ہوں یہاں
مجھ کو یہ وہم ہے ہر خواب مرا جھوٹا ہے
مجھ کو یہ وہم ہے میں نقطۂ مبہم ہوں
مگر
مطربہ تو مرے اوہام میں شامل بھی نہیں
تو مرے وہم کا حاصل بھی نہیں
مطربہ ساز اٹھا شور شکیبائی کر
اور اک بار یہ ہنگامۂ رسوائی کر
اور پھر جب کہ مشیت کا تقاضہ ہے یہی
زرد چہروں کے یہ مہتاب غنیمت جانیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.