فصیل شب
دامن دل پہ غبار رہ منزل ہے ابھی
پائے افکار میں دیرینہ سلاسل ہے ابھی
تیرگی شعلۂ احساس کا حاصل ہے ابھی
روشنی قید میں دن کاٹ رہی ہے اب تک
تشنگی دل کا لہو چاٹ رہی ہے اب تک
جو نفس ہے ہدف دشنۂ قاتل ہے ابھی
دل کے ہر زخم سے رستا ہے امیدوں کا لہو
ریگ زاروں نے کیا خون بہاراں سے وضو
جانے کس راہ میں ہے قافلۂ رنگ و نمو
ایک اک شاخ شگوفوں سے ہے خالی اب تک
میکدہ ڈھال لیا مے نہیں ڈھالی اب تک
نہ کہیں رقص بہاراں ہے نہ جشن لب جو
روشنی اوڑھ کے ظلمت کا کفن آئی ہے
خون میں ڈوب کے سورج کی کرن آئی ہے
زخم جاں بن کے صبا سوئے چمن آئی ہے
لب و رخسار تمنا پہ نکھار آ نا سکا
اہل دل کو سر منزل بھی قرار آ نہ سکا
پھر وہی رہ گزر دار و رسن آئی ہے
پھر وہی خواب سحر لے کے چلے ہیں ہم لوگ
مشعل خون جگر لے کے چلے ہیں ہم لوگ
ان اندھیروں کا بھرم توڑ کے دم لینا ہے
ہاں فصیل شب غم توڑ کے دم لینا ہے
تیشۂ فکر و نظر لے کے چلے ہیں ہم لوگ
کچھ دنوں کشمکش جبر و ستم اور سہی
کچھ دنوں سوز دروں دیدۂ غم اور سہی
گام دو گام سواد شب غم اور سہی
صبح نو اب کسی دیوار کے گھیرے میں نہیں
ہم اندھیرے میں ہیں منزل تو اندھیرے میں نہیں
اتنی دور آئے تو دو چار قدم اور سہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.