ہر برس ان دنوں میں کہیں بھی رہوں
سلسلے ابر کے
سست رو تیز رو قافلے ابر کے
یوں ہی آتے ہیں قلزم لٹاتے ہوئے
یوں ہی جاتے ہیں یہ ان کا دستور ہے
لیکن اب کے برس
میں اکیلا سر دشت تشنہ کھڑا
ان کو رہ رہ کے آواز دیتا رہا
مجھ کو بھی ساتھ لیتے چلو
قافلہ چھٹ گیا ہے مرا
سلسلے ابر کے
قافلے ابر کے
یوں ہی آتے رہے
یوں ہی جاتے رہے
کب سے آنکھوں کو حسرت ہے برسات کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.