باپ
وہ ایک پل تھا
مرے اور اجداد کے زمانوں کا نقطۂ اتصال
اس کی گزر گاہوں سے روایتوں اور حکایتوں کے ہزارہا قافلے نکل کر
نئے زمانے کی یورشوں سے مری بکھرتی انا میں
الفت یقین اور اعتماد کے رنگ بھر گئے ہیں
وہ ایک پل آج ٹوٹ کر گہری گھاٹیوں میں گرا ہے
اب میں کھڑا ہوں
ان گہری گھاٹیوں پر
میں ایک پل ہوں
وہ ایک برگد تھا
جس کی چھاؤں میں ایک ٹھنڈی مٹھاس تھی
جس نے جلتے سورج کی حدتیں اپنے جسم میں جذب کر کے
اس کی سنہری کرنوں کو ٹھنڈی شبنم کی طرح
میری اجاڑ آنکھوں میں قطرہ قطرہ اتارا
وہ آج حدتوں کے وفور سے جل گیا
تو اب میں ہی ایک برگد ہوں
آنے والوں کے واسطے ایک ٹھنڈی چھاؤں
وہ ایک جوالہ تھا
وہ بھرپور زیست کرنے کی ایک سیمابی آرزو
وہ لہو کی دھڑکن
جو رات کی ظلمتوں پہ شب خون مار کر
روشنی اور امید کے دریچوں کو کھولتا
آج شب کا سفاک ہاتھ
اس کے لہو کی دھڑکن کو لے اڑا
اور اب فقط میں ہوں
رات کی ظلمتوں سے پنجہ فگن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.