فکر کا قیدی
دنوں ہفتوں مہینوں سوچتا ہوں
کسی جوالا مکھی سا کھولتا ہوں اپنے پیکر کی گپھاؤں میں
پھر اس کے بعد آتا ہے اک ایسا پل زمیں ہلنے لگے جیسے
ابل اٹھتا ہے لاوا توڑ کر کتنی چٹانیں
اور ساری سوچ اک بھیگی ہوئی دیوار کی صورت
اچانک بیٹھ جاتی ہے
مگر جوالا مکھی جوالا مکھی ہے
یہ خروش نار کی تہذیب کے انداز کیا جانے
لرز جاتا ہوں اک ہلکی صدا پر اس طرح اکثر
بغل سے جیسے کوئی سنسناتا تیر گزرا ہو
کہاں لے جاؤں اپنے کو
سلگتے فلسفے حلقہ بہ حلقہ ذہن پر یلغار کرتے ہیں
کسی قدغن سے کب رکتا ہے شعلوں کا یہ فوارہ
کہ اور اک سوچ اس انداز سے پھر پھوٹ پڑتی ہے
بنا جاتا ہوں اپنی فکر کی زنجیر کا قیدی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.