فی الشجر الاخضر نار
ہرے درختوں سے آگ برسے
نگار خانوں میں خار و خس ہیں
چمکتے پتوں کے دامنوں پر
لچکتی ڈالوں پہ ٹہنیوں پر
گلوں کی لالی میں کار فرما
لہو شہیدوں کا ہر طرف ہے
الاؤ جھیلوں میں تھے کنول کے
وہ راکھ جل کے ہوئے ہیں کب کے
دیے بجھا کر کنول کی تھالی
دکان سنگین و بم سجائے
اجل کے قاصد کی منتظر ہے
وہ خوشبوؤں کے لطیف لہرے
کہیں نہیں ہے نشان ان کا
نئی ہے کھیتی نئی ہیں فصلیں
اگیں گے کھیتوں میں توپ گولے
کہیں پہ گولی کی بالیاں بھی
کہیں اگیں گی سروں کی فصلیں
کہیں پہ دست حنا اگیں گے
کہیں پہ چشم غزال آسا
کہیں پہ زلف دوتا اگے گی
کہیں زبان بریدہ ہوگی
کہیں تراشیدہ پا اگیں گے
جو آج بوئیں گے کل اگے گا
ہوا کا ثمرہ بگولے ہوں گے
شرر سے شعلے اگا کریں گے
مگر جو خرمن ہیں ظلمتوں کے
کبھی تو ان پر عتاب ہوگا
کبھی تو برق تپاں گرے گی
کبھی تو روز حساب ہوگا
کبھی حقیقت شناس اٹھ کر
بتائیں گے یہ لہو ہے کس کا
یہ کس کے لاشے ہیں ایسے آخر
کہ بعد صدیوں کے خندہ لب ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.