غالب اور آم
نہ تھے شاعر ہی کچھ بڑے غالب
دل لگی میں بھی خوب تھے غالب
خوب ہنستے ہنساتے رہتے تھے
بڑی پر لطف بات کہتے تھے
عام ان کو پسند تھے بے حد
یعنی رسیا تھے آم کے بے حد
خود بھی بازار سے منگاتے تھے
دوست بھی آم ان کو بھجواتے
پھر بھی آموں سے جی نہ بھرتا تھا
آم کا شوق ان کو اتنا تھا
ان کے قصے تمہیں سنائیں ہم
ان کی باتوں سے کچھ ہنسائیں ہم
ایک محفل میں وہ بھی بیٹھے تھے
لوگ آموں کا ذکر کرتے تھے
آم ایسا ہو آم ویسا ہو
پوچھا غالب سے عام کیسا ہو
بولے غالب کہ پوچھتے ہو اگر
صرف دو خوبیوں پہ رکھیے نظر
بات پہلی یہ ہے کہ میٹھا ہو
دوسری بات یہ بہت سا ہو
ایک دن دوست ان کے گھر آئے
آم غالب نے تھے بہت کھائے
سامنے گھر کے تھے پڑے چھلکے
اس گلی میں سے کچھ گدھے گزرے
ان گدھوں نے نہ چھلکے وہ کھائے
سونگھ کر ان کو بڑھ گئے آگے
دوست نے جب یہ ماجرا دیکھا
سوچا غالب کو اب ہے سمجھانا
دوست بولے ہے شے بری سی آم
دیکھو کھاتے نہیں گدھے بھی آم
ہنس کے غالب یہ دوست سے بولے
جی ہاں بے شک گدھے نہیں کھاتے
بادشہ کر رہے تھے سیر باغ
خوش تھا آموں سے ان کا قلب و دماغ
بادشہ کے تھے ساتھ غالب بھی
ڈالتے تھے نظر وہ للچائی
جی میں یہ تھا کہ خوب کھائیں آم
بادشہ سے جو آج پائیں عام
گھورتے تھے جو غالب آموں کو
بادشہ بولے گھورتے کیا ہو
بادشہ سے یہ بولے وہ ہنس کر
مہر ہوتی ہے دانے دانے پر
دیکھتا ہوں یوں گھور کر میں آم
شاید ان پر لکھا ہو میرا نام
مقصد ان کا جو بادشہ پائے
پھر بہت آم ان کو بھجوائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.