گاؤں اور ریل
میرے گاؤں میں آئی ریل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
بات ہے میرے بچپن کی
شاید انیس سو پچپن کی
میرے دل کی الجھن کی
گاؤں میں کیسے آئی ریل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
میرے دادا کہتے تھے
کلکتہ جو رہتے تھے
گاؤں والے ہنستے تھے
وہاں سڑک پر چلی ریل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
کلکتہ جانا تھا مشکل
ریل تو ملتی چل کر پیدل
تیس میل پر تھا جو سگنل
مشکل کو سب جاتے جھیل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
بڑے لوگ جب جانا سوچتے
رات میں بیل گاڑی کو جوتتے
راستے میں جب ڈاکو روکتے
چھوڑ کے گاڑی بھاگتے بیل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
آزادی نے داد مٹایا
گاؤں کو شہروں سے ملایا
امیدوں کا پھول کھلایا
سدا ہری رہے یہ بیل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
دلی میں ان شن ہوئے
ریل کے تب نقشے بنے
بابو جی جب بن گئے
مرکز میں وزیر ریل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
شہر سے سب کچھ ریل سے لاتے
ڈبوں کو نقصاں پہنچاتے
چوری کرتے پکڑے جاتے
جو پکڑائے جاتے جیل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
مشکل دن سب کٹ جاتے ہیں
لیکن وہ دن یاد آتے ہیں
اب تو سب کالج جاتے ہیں
پکڑ کے بامبے میل
بچو نہیں یہ کوئی کھیل
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.