غازہ
لہو آج پھر بہہ رہا ہے
زمیں تو زمیں آسماں سرخ ہے
دیار اشوکا میں پھر رقص ابلیس کا ہے
چمن زار گوتم میں ہیں چاک در چاک کلیاں
زباں میرؔ و غالبؔ کی اب کشتنی ہے
نگار وطن در پہ جمہور کے سرنگوں ہے
مگر اے شہیدان اردو
تمہارا لہو
چراغ سر رہ گزر ہے
متاع گراں بحر فکر و نظر ہے
پیام طلوع سحر ہے
تمہارے لہو سے
لب وقت پر آ گیا ہے تبسم
عنادل نے پایا ہے ذوق ترنم
زبان خموشی نے سیکھی ہے طرز تکلم
یقیں ہے
لہو یہ تمہارا
رخ میرؔ و غالبؔ کا غازہ بنے گا
جبین وطن پر
یہ چمکے گا سیندور بن کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.