جب میرے وطن کی گلیوں میں
ظلمت نے پنکھ پسارے تھے
اور رات کے کالے بادل نے
ہر شہر میں ڈیرا ڈالا تھا
جب بستی بستی دہک اٹھی
یوں لگتا تھا سب راکھ ہوا
یوں لگتا تھا محشر ہے بپا
اور رات کے ظالم سائے سے
بچنے کا کوئی یارا بھی نہ تھا
صدیوں میں تراشا تھا جس کو
انسان کے انتھک ہاتھوں نے
تہذیب کے اس گہوارے میں
ہر پھول دہکتا شعلہ تھا
جب نام خود ایندھن کی طرح
بھٹی میں جلایا جانے لگا
اور نیک خدا کے سب بندے
مردود حرم ٹھہرائے گئے
جب خون کی ہولی رسم بنی
اور مقتل گاہیں عام ہوئیں
بربریت وحشت فن ٹھہری
اس فن کی بزمیں عام ہوئیں
جب شوہر بیٹے بھائی پدر
سب نام خدا کے کام آئے
آواز تھی اک انسان کی بھی
اس شور کے بیہڑ جنگل میں
جو مٹنے کو تیار نہ تھی
جو ذہنوں کو گرماتی رہی
جو چھلنی جسم سے کہتی رہی
اٹھ ہاتھ بڑھا ہاتھوں کو پکڑ
لاکھوں ہیں یہاں تیرے جیسے
اس جنگ کو جاری رکھنا ہے
گر ٹوٹ گئے تو ہار گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.