گرد باد
بگولا
خاک زادہ فرش افتادہ
ہوا جاروب کرتی ہے تو اس کا جسم ڈھلتا ہے
سفر کی گردشیں سودائے باطن منتشر سوچیں
ہیولے سا بگولا
بے شباہت قیس زادہ
شہر کی گلیوں میں چکراتا ہے
خود میں چیختا پل میں کئی قرنوں کے بل کھاتا ہے
گرد زرد کا جھولا
بگولا
ہجر زادہ بلکہ ہجرت زاد
صحرا سے ابھی بستی میں آیا تھا
ڈرے سہمے ہوئے لوگوں کی آنکھیں حشر بستہ تھیں
ابھی دو چار گلیاں طے نہ ہو پائیں
خم و پیچ اس کی رہ میں آئے
ذرے کسمسائے
جسم کے اعضا جھڑے
آہستہ آہستہ اڑان اندوہ میں بدلی
اور اب لوگوں کے قدموں میں کوئی واماندہ گرد
بے کنارہ فتادہ ہے
فردا کی دھن میں کوئی ہو بس اک ہیولیٰ ہے
مرے باطن میں جو کچھ پیچ کھاتا ہے
ہیولیٰ یا بگولا ہے
میں پانی اور مٹی سے بہت ڈرتا ہوں
ہجرت سے گزرتا ہوں
ابھرتا ہوں بکھرتا ہوں
- کتاب : Sitarah Saaz (Pg. 16)
- Author : Akhtar Usman
- مطبع : Ahbaab Publications (2013)
- اشاعت : 2013
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.