غریبوں کا خدا کوئی نہیں
ایک دن تھی دوپہر کی سخت گرمی آشکار
دھوپ کی شدت تھی مثل نار دوزخ قہر بار
دامنوں میں آگ لے کر تھی دواں باد سموم
تھرتھراہٹ تھی فضا میں مثل موج شعلہ بار
آسماں سے شعلے گرتے تھے جھلستی تھی زمیں
گرمیٔ روز قیامت کا نمونہ آشکار
گرم جھونکے چل رہے تھے تھیں ہوا کی یورشیں
تند شعلے سرخ ذرے اڑ رہے تھے بار بار
ہر کسی کی تھا زباں پر الحفیظ و الغیاث
چلچلاتی دھوپ سے تھا ذرہ ذرہ بے قرار
راستے سونے پڑے تھے راہ پر کوئی نہ تھا
چل رہی تھی ہر طرف لو اور بشر کوئی نہ تھا
ہاں مگر تھا رکشا والا ایک سرگرم سفر
جس کو غربت کر رہی تھی موت سے سینہ سپر
جو نگاہ اہل ثروت میں حقیر و پائمال
زندگانی وقف تھی جس کی برائے اہل زر
جس کی دنیا فقر و فاقہ جس کی قسمت رنج و غم
جبر قدرت ہی نے جس کو کر دیا بے بال و پر
خون بن بن کر پسینہ ہر بن مو سے رواں
چار پیسے کے لئے جو بن گیا تھا جانور
بے نیاز عیش و عشرت آشنائے درد و غم
ایک مشت استخواں آشفتہ رو با چشم تر
اس گھڑی بھی مضطرب تھا رزق کوشی کے لئے
آگ میں وہ جل رہا تھا اپنی روٹی کے لئے
کیا بتاؤں کیا مری آنکھوں نے دیکھا پھر سماں
اڑ رہی ہیں قلب سوزاں سے مرے چنگاریاں
دفعتاً ٹھوکر لگی اور چلتے چلتے گر پڑا
مرغ بسمل دم کے دم میں بن گیا وہ نیم جاں
دیکھتا ہوں جا کے میں تو خاک کا اک ڈھیر تھا
منہ سے باہر تھی زباں اور خون ہونٹوں سے رواں
مرنے والے کی کسی حسرت میں تھیں آنکھیں کھلی
اٹھ رہا تھا پیکر بے جاں سے رہ رہ کر دھواں
چارہ ساز و دستگیر بے کساں کوئی نہ تھا
کون ہوتا بے نواؤں کا بھلا ماتم کناں
مفلسوں کا دہر میں مشکل کشا کوئی نہیں
اے زکیؔ سچ ہے غریبوں کا خدا کوئی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.