گوریا
بچپن میں گوریا کو دیکھ کر لگتا تھا
کاش میں گوریا ہوتی
گھر کے روشن دان میں رہنے والی
جس کو صبح سب سے پہلے اندھیرا چھوڑ کر جاتا
اور جس کے پنکھ کی اڑان گاؤں کی حد تک تھی
تب کھیتوں میں زہر نہیں بویا جاتا تھا
برسوں بعد دیکھا
اے سی کے چکر میں روشن دان نہیں رہے
کردار کے چکر میں خاندان نہیں رہے
آنگن کی جگہ لے لی
ڈائننگ ہال نے
گوریا اپنے جھنڈ کے ساتھ در بدر ہو گئی
ریلوے اسٹیشنوں کے تاروں پر
رات بھر بیٹھی رہتی ہے
قطار میں
مسافروں کی طرح
کسی ٹائم ٹریول کی ٹرین پکڑنے کی امید میں
شاید انہیں پھر سے
مل جائے کوئی آنگن
جہاں بچوں کے ہاتھ کا گرا دانہ
چننے کا ملے موقع
پھر سے
چھوٹے بچوں کی
نظموں اور کہانیوں میں ہی نہیں
سپنوں میں بھی چہچہائے
گوریا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.