Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھاس میں چھپے سانپ

محمد حنیف رامے

گھاس میں چھپے سانپ

محمد حنیف رامے

MORE BYمحمد حنیف رامے

    میں گھاس ہوں

    ہری بھری گھاس

    پانی ملے تو ہری بھری نہ ملے تو گھاس پھوس

    تھوڑی نرگسیت کی اجازت دیجیے

    ارے جب اگتی ہوں تو کیا جوبن ہوتا ہے مجھ پر

    نئی نئی گھاس پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو

    اندھوں کی آنکھوں میں بھی طراوت اتر آتی ہے جناب

    اور ہائے وہ تازہ تازہ گھاس کی خوشبو

    پر افسوس جب دیر تک بارش نہ ہو تو پیلی پڑ جاتی ہوں

    مگر دھوپ پہلے مجھے سونا اور پھر کندن بنا دیتی ہے

    زمین پر ایستادہ ہزاروں پہاڑیوں پر میرا ہی رنگ چڑھا ہوتا ہے

    آنکھ رکھنے والے کہتے ہیں

    سبزے سے ڈھکی پہاڑیاں کتنی بھی حسین ہوں

    سونے سے ڈھکی پہاڑیوں کی بات ہی الگ ہے

    لیکن یہ میں کیا بڑ ہانکنے بیٹھ گئی

    آمدن برسر مطلب میں سانپوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں

    سانپ جو گھاس میں چھپ کردار کرتے ہیں

    گھاس سے ڈھکے لان باغ اور پارک

    کروڑوں انسانوں کو تسکین دیتے ہیں

    بچے گھاس پر بھاگتے دوڑتے اچھلتے کودتے اور لوٹ پوٹ ہوتے ہیں

    جوان مجھ پر چلتے ہوئے محبتوں کا اظہار اور اقرار کرتے ہیں

    عمر رسیدہ لوگ دور دور تک پھیلے سبزے کو دیکھ کر

    دل کی گھٹن اور احساس زیاں بھول جاتے ہیں

    میں خوش ہوتی ہوں کہ کسی کے کام آ ہی ہوں

    لیکن میری خوشی دکھ اور شرمندگی میں بدل جاتی ہے

    جب میرے اندر چھپے ہوئے سانپ انسانوں کو ڈس لیتے ہیں

    سوچتی ہوں ان سانپوں کا کیا علاج کروں

    سوچتی ہوں ان سانپوں کا کوئی علاج ہے بھی یا نہیں

    سوچتی ہوں سانپ مجھی میں تو نہیں چھپے

    وہ تو زمین کے کونے کونے میں موجود ہیں

    اس کے اندر بھی اس کے باہر بھی

    سوچتی ہوں جس تیزی سے سانپوں کی تعداد بڑھ رہی ہے

    کل یہ ساری زمین پر نہ چھا جائیں

    سوچتی ہوں کوئی سیلاب ہی آ جائے جو انہیں بہا لے جائے

    پھر خیال آتا ہے یہ بہہ کر جائیں گے کہاں

    آخر ایک نہ ایک دن پانی اترے گا اور یہ دوبارہ خشکی پر چڑھ آئیں گے

    اور میرے ہی دامن میں پناہ لے لیں گے

    سوچتی ہوں خدا نے مجھے بنایا تھا تو انہیں کیوں بنایا

    اور اگر بنایا ہی تھا تو ان کے اندر زہر کیوں بھر دیا

    کیوں ہو گئے یہ انسان کے دشمن

    مگر سارے سانپ تو زہریلے نہیں ہوتے

    اور کیا انسانوں کے اندر بھی زہر نہیں بھرتا جا رہا ہے اب

    سوچتی ہوں انسان سانپ سے ڈرتا ہے تو

    سانپ بھی انسان سے ڈرتا ہے

    انسان نے سانپ میں شیطان کی شکل دیکھی تھی

    جس نے اسے جنت سے نکلوا دیا تھا

    انسان کے اندر شیطان سے برابر اترنے کی طلب رکھ دی گئی ہے

    جہاں کہیں سانپ کو دیکھتا ہے اسے مارنے کی کوشش کرتا ہے

    سانپ کو بھی انسان کے اس ازلی و ابدی ارادے کی خبر ہے

    اسی لیے تو انسان کی آہٹ یا بو پاتے ہی بھاگ کھڑا ہوتا ہے

    خرابی تو میری وجہ سے ہوتی ہے

    گھاس میں چھپا سانپ انسان کو دیکھ کر بھاگتا ہے

    لیکن انسان اسے دیکھ نہیں پاتا اور نا دانستہ اس کا پاؤں سانپ پر پڑ جاتا ہے

    اور سانپ اپنی جان بچانے کے لیے اسے ڈس لیتا ہے

    یوں میں ذریعہ بن جاتی ہوں انسان کی موت کا

    مجھے اپنا یہ کردار ہرگز پسند نہیں

    سوچتی ہوں انسانوں اور سانپوں نے آپس میں لڑنا ہی ہے تو

    میری آڑ میں نہ لڑیں

    سڑکوں پر لڑیں گھروں کے اندر لڑیں

    چٹیل میدانوں میں لڑیں صحراؤں میں لڑیں

    پھر خیال آتا ہے ان جگہوں پر تو پہلے ہی گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے

    انسان انسان سے لڑ رہا ہے

    اور اس نے طرح طرح کے

    مہلک کیمیائی جوہری اور نفسیاتی ہتھیار ایجاد کر لیے ہیں

    ایک دوسرے کو دکھ دینے اور مارنے کے لیے

    سوچتی ہوں کہیں انسانوں نے مرنے کا شوق تو نہیں پال لیا

    اور اگر انہوں نے مرنے ہی کی ٹھان لی ہے

    تو میں کس چکر میں ان کا غم کھا رہی ہوں

    مجھے یہی فکر ہے نا کہ زندگی اربوں سال کے سفر میں انسان تک پہنچی ہے

    اور اب اگر انسانوں کے ہاتھوں انسان تباہ ہو گئے

    اور ساتھ ہی زمین برباد ہو گئی تو میں بھی ماری جاؤں گی

    زندگی ہی رخصت ہو جائے گی زمین سے

    پھر خیال آتا ہے میں تو زندگی کی بہت ابتدائی صورت ہوں

    اگر زندگی کا سفر کھوٹا ہو جانے کی اس قدر فکر لاحق ہے مجھے

    تو انسان جو زندگی کا افضل ترین نمونہ ہیں

    وہ اجتماعی خودکشی کے راستے پر کیوں چل نکلے ہیں

    سانپوں سے دشمنی نباہتے نباہتے خود سانپ کیوں بن گئے ہیں

    خوبصورت اور بے ضرر سانپ نہیں

    زہریلے اور مہلک سانپ جو ایک دوسرے کو ڈس رہے ہیں

    اور کچھ انسان تو دولت اور طاقت سمیٹ کر اژدہے بن گئے ہیں

    افسوس تو یہ ہے کہ مارے زیادہ تر وہ جا رہے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا

    اژدہوں کی لڑائی میں چھوٹے موٹے سانپ

    مکھیوں اور چیونٹیوں کی طرح پس کر رہ جاتے ہیں

    سوچتی ہوں کسی سیلاب نے زمین کو سانپوں سے پاک بھی کر دیا

    تو سانپوں کی طرح پھٹکارتے انسانوں سے کیونکر چھٹکارا ہوگا

    اسی لیے سوچ سوچ کر چپ ہو رہتی ہوں

    لیکن یہ چپ اندر ہی اندر مجھے کھائے جاتی ہے

    دیکھیے میں پیلی پڑتی جا رہی ہوں

    ہرے بھرے سبزے سے روکھا سوکھا گھاس پھوس بنتی جا رہی ہوں

    اور زمین پر سونا بکھرتا جا رہا ہے

    پہاڑیاں سونے سے دمک اٹھی ہیں

    مگر انسان ان سے بے نیاز

    کاغذی سونے کی تلاش میں

    ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہوئے

    زمین پر مارے مارے پھر رہے ہیں

    کاش انسان کاغذی سونے سے نگاہ اٹھا کر دیکھتے

    کہ جس سانپ کو وہ شیطان سمجھ کر مارنے دوڑتے ہیں

    وہ تو حرص کی صورت میں اس کے دل میں جا بیٹھا ہے

    اور ان کے اپنے ہاتھوں کاغذ کے چند ٹکڑوں کی خاطر

    نسل انسانی کو ہلاک کروا رہا ہے

    سوچتی ہوں آگ اگلتے سانپوں کی طرح

    کسی انسان کی پھنکار نے مجھے چنگاری دکھا دی

    تو جنگل کے جنگل جل کر راکھ ہو جائیں گے

    انسان کو تو اپنی نوع کی فکر نہیں

    وہ زمین پر آباد زندگی کی دوسری صورتوں کی کیا پروا کرے گا

    کاش اسے فرصت ہوتی دیکھنے کی

    کہ جس گھاس پھوس کو وہ بے دھیانی میں جلا ڈالتا ہے

    وہ زمین کا لباس ہے

    اس زمین کا جس نے اسے پالا تھا

    جو ساری زندگی کی طرح اس کی بھی ماں ہے

    اور گھاس پھوس کو جلا کر وہ اپنی ماں کو بے ستر کر رہا ہے

    لیکن میں یہ کیا پکھان لے بیٹھی ہوں

    میں تو اپنا تعارف کرا رہی تھی

    اور اپنے اندر چھپے سانپوں کی بات کر رہی تھی

    اور چل پڑی سانپوں سے انسان کی طرف

    انسانوں کی طرف جو سانپوں کی طرف چل رہے ہیں

    ویسے سانپ بھی اپنے بچے کھا جاتا ہے

    اور اب انسان بھی اپنے بچے کھا رہا ہے

    اور میں وہی گھاس

    محو یاس اداس

    مأخذ :
    • کتاب : din kaa phool (Pg. 177)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے