گھاس میں چھپے سانپ
میں گھاس ہوں
ہری بھری گھاس
پانی ملے تو ہری بھری نہ ملے تو گھاس پھوس
تھوڑی نرگسیت کی اجازت دیجیے
ارے جب اگتی ہوں تو کیا جوبن ہوتا ہے مجھ پر
نئی نئی گھاس پر سورج کی کرنیں پڑتی ہیں تو
اندھوں کی آنکھوں میں بھی طراوت اتر آتی ہے جناب
اور ہائے وہ تازہ تازہ گھاس کی خوشبو
پر افسوس جب دیر تک بارش نہ ہو تو پیلی پڑ جاتی ہوں
مگر دھوپ پہلے مجھے سونا اور پھر کندن بنا دیتی ہے
زمین پر ایستادہ ہزاروں پہاڑیوں پر میرا ہی رنگ چڑھا ہوتا ہے
آنکھ رکھنے والے کہتے ہیں
سبزے سے ڈھکی پہاڑیاں کتنی بھی حسین ہوں
سونے سے ڈھکی پہاڑیوں کی بات ہی الگ ہے
لیکن یہ میں کیا بڑ ہانکنے بیٹھ گئی
آمدن برسر مطلب میں سانپوں کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں
سانپ جو گھاس میں چھپ کردار کرتے ہیں
گھاس سے ڈھکے لان باغ اور پارک
کروڑوں انسانوں کو تسکین دیتے ہیں
بچے گھاس پر بھاگتے دوڑتے اچھلتے کودتے اور لوٹ پوٹ ہوتے ہیں
جوان مجھ پر چلتے ہوئے محبتوں کا اظہار اور اقرار کرتے ہیں
عمر رسیدہ لوگ دور دور تک پھیلے سبزے کو دیکھ کر
دل کی گھٹن اور احساس زیاں بھول جاتے ہیں
میں خوش ہوتی ہوں کہ کسی کے کام آ ہی ہوں
لیکن میری خوشی دکھ اور شرمندگی میں بدل جاتی ہے
جب میرے اندر چھپے ہوئے سانپ انسانوں کو ڈس لیتے ہیں
سوچتی ہوں ان سانپوں کا کیا علاج کروں
سوچتی ہوں ان سانپوں کا کوئی علاج ہے بھی یا نہیں
سوچتی ہوں سانپ مجھی میں تو نہیں چھپے
وہ تو زمین کے کونے کونے میں موجود ہیں
اس کے اندر بھی اس کے باہر بھی
سوچتی ہوں جس تیزی سے سانپوں کی تعداد بڑھ رہی ہے
کل یہ ساری زمین پر نہ چھا جائیں
سوچتی ہوں کوئی سیلاب ہی آ جائے جو انہیں بہا لے جائے
پھر خیال آتا ہے یہ بہہ کر جائیں گے کہاں
آخر ایک نہ ایک دن پانی اترے گا اور یہ دوبارہ خشکی پر چڑھ آئیں گے
اور میرے ہی دامن میں پناہ لے لیں گے
سوچتی ہوں خدا نے مجھے بنایا تھا تو انہیں کیوں بنایا
اور اگر بنایا ہی تھا تو ان کے اندر زہر کیوں بھر دیا
کیوں ہو گئے یہ انسان کے دشمن
مگر سارے سانپ تو زہریلے نہیں ہوتے
اور کیا انسانوں کے اندر بھی زہر نہیں بھرتا جا رہا ہے اب
سوچتی ہوں انسان سانپ سے ڈرتا ہے تو
سانپ بھی انسان سے ڈرتا ہے
انسان نے سانپ میں شیطان کی شکل دیکھی تھی
جس نے اسے جنت سے نکلوا دیا تھا
انسان کے اندر شیطان سے برابر اترنے کی طلب رکھ دی گئی ہے
جہاں کہیں سانپ کو دیکھتا ہے اسے مارنے کی کوشش کرتا ہے
سانپ کو بھی انسان کے اس ازلی و ابدی ارادے کی خبر ہے
اسی لیے تو انسان کی آہٹ یا بو پاتے ہی بھاگ کھڑا ہوتا ہے
خرابی تو میری وجہ سے ہوتی ہے
گھاس میں چھپا سانپ انسان کو دیکھ کر بھاگتا ہے
لیکن انسان اسے دیکھ نہیں پاتا اور نا دانستہ اس کا پاؤں سانپ پر پڑ جاتا ہے
اور سانپ اپنی جان بچانے کے لیے اسے ڈس لیتا ہے
یوں میں ذریعہ بن جاتی ہوں انسان کی موت کا
مجھے اپنا یہ کردار ہرگز پسند نہیں
سوچتی ہوں انسانوں اور سانپوں نے آپس میں لڑنا ہی ہے تو
میری آڑ میں نہ لڑیں
سڑکوں پر لڑیں گھروں کے اندر لڑیں
چٹیل میدانوں میں لڑیں صحراؤں میں لڑیں
پھر خیال آتا ہے ان جگہوں پر تو پہلے ہی گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے
انسان انسان سے لڑ رہا ہے
اور اس نے طرح طرح کے
مہلک کیمیائی جوہری اور نفسیاتی ہتھیار ایجاد کر لیے ہیں
ایک دوسرے کو دکھ دینے اور مارنے کے لیے
سوچتی ہوں کہیں انسانوں نے مرنے کا شوق تو نہیں پال لیا
اور اگر انہوں نے مرنے ہی کی ٹھان لی ہے
تو میں کس چکر میں ان کا غم کھا رہی ہوں
مجھے یہی فکر ہے نا کہ زندگی اربوں سال کے سفر میں انسان تک پہنچی ہے
اور اب اگر انسانوں کے ہاتھوں انسان تباہ ہو گئے
اور ساتھ ہی زمین برباد ہو گئی تو میں بھی ماری جاؤں گی
زندگی ہی رخصت ہو جائے گی زمین سے
پھر خیال آتا ہے میں تو زندگی کی بہت ابتدائی صورت ہوں
اگر زندگی کا سفر کھوٹا ہو جانے کی اس قدر فکر لاحق ہے مجھے
تو انسان جو زندگی کا افضل ترین نمونہ ہیں
وہ اجتماعی خودکشی کے راستے پر کیوں چل نکلے ہیں
سانپوں سے دشمنی نباہتے نباہتے خود سانپ کیوں بن گئے ہیں
خوبصورت اور بے ضرر سانپ نہیں
زہریلے اور مہلک سانپ جو ایک دوسرے کو ڈس رہے ہیں
اور کچھ انسان تو دولت اور طاقت سمیٹ کر اژدہے بن گئے ہیں
افسوس تو یہ ہے کہ مارے زیادہ تر وہ جا رہے ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا
اژدہوں کی لڑائی میں چھوٹے موٹے سانپ
مکھیوں اور چیونٹیوں کی طرح پس کر رہ جاتے ہیں
سوچتی ہوں کسی سیلاب نے زمین کو سانپوں سے پاک بھی کر دیا
تو سانپوں کی طرح پھٹکارتے انسانوں سے کیونکر چھٹکارا ہوگا
اسی لیے سوچ سوچ کر چپ ہو رہتی ہوں
لیکن یہ چپ اندر ہی اندر مجھے کھائے جاتی ہے
دیکھیے میں پیلی پڑتی جا رہی ہوں
ہرے بھرے سبزے سے روکھا سوکھا گھاس پھوس بنتی جا رہی ہوں
اور زمین پر سونا بکھرتا جا رہا ہے
پہاڑیاں سونے سے دمک اٹھی ہیں
مگر انسان ان سے بے نیاز
کاغذی سونے کی تلاش میں
ایک دوسرے کا گلا کاٹتے ہوئے
زمین پر مارے مارے پھر رہے ہیں
کاش انسان کاغذی سونے سے نگاہ اٹھا کر دیکھتے
کہ جس سانپ کو وہ شیطان سمجھ کر مارنے دوڑتے ہیں
وہ تو حرص کی صورت میں اس کے دل میں جا بیٹھا ہے
اور ان کے اپنے ہاتھوں کاغذ کے چند ٹکڑوں کی خاطر
نسل انسانی کو ہلاک کروا رہا ہے
سوچتی ہوں آگ اگلتے سانپوں کی طرح
کسی انسان کی پھنکار نے مجھے چنگاری دکھا دی
تو جنگل کے جنگل جل کر راکھ ہو جائیں گے
انسان کو تو اپنی نوع کی فکر نہیں
وہ زمین پر آباد زندگی کی دوسری صورتوں کی کیا پروا کرے گا
کاش اسے فرصت ہوتی دیکھنے کی
کہ جس گھاس پھوس کو وہ بے دھیانی میں جلا ڈالتا ہے
وہ زمین کا لباس ہے
اس زمین کا جس نے اسے پالا تھا
جو ساری زندگی کی طرح اس کی بھی ماں ہے
اور گھاس پھوس کو جلا کر وہ اپنی ماں کو بے ستر کر رہا ہے
لیکن میں یہ کیا پکھان لے بیٹھی ہوں
میں تو اپنا تعارف کرا رہی تھی
اور اپنے اندر چھپے سانپوں کی بات کر رہی تھی
اور چل پڑی سانپوں سے انسان کی طرف
انسانوں کی طرف جو سانپوں کی طرف چل رہے ہیں
ویسے سانپ بھی اپنے بچے کھا جاتا ہے
اور اب انسان بھی اپنے بچے کھا رہا ہے
اور میں وہی گھاس
محو یاس اداس
- کتاب : din kaa phool (Pg. 177)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.