گھٹا چھائی تو کیا
چھٹ گئے جب آپ ہی اودی گھٹا چھائی تو کیا
تربت پامال کے سبزے پہ لہر آئی تو کیا
جب ضرورت ہی رہی باقی نہ لحن و رنگ کی
کوئلیں کوکیں تو کیا ساون کی رت آئی تو کیا
ہجر کے آلام سے جب چھٹ چکی نبض نشاط
اب ہوا نے خار و خس میں روح دوڑائی تو کیا
ہو چکی ذوق تبسم ہی سے جب بیگانگی
اب چمن افروز پھولوں کو ہنسی آئی تو کیا
مڑ چکی جب موت کے جادے کی جانب زندگی
اب کسی نے عافیت کی راہ دکھلائی تو کیا
ہر نفس کے ساتھ دل سے جب دھواں اٹھنے لگا
بادلوں سے چھن کے اب ٹھنڈی ہوا آئی تو کیا
سامنے جب آپ کے گیسو کی لہریں ہی نہیں
بدلیوں نے چرخ پر اب زلف بکھرائی تو کیا
ہو چکا پایاب جب بحر سر و برگ شباب
اب سمندر کی جوانی باڑھ پر آئی تو کیا
غنچۂ عہد طرب ہی مل چکا اب خاک میں
خاک گلشن اب گل تر بن کے اترائی تو کیا
مٹ چکے جب والہانہ بانکپن کے ولولے
آئی اب دوشیزۂ موسم کو انگڑائی تو کیا
کھل چکا جب پرچم غم زندگی کے قصر پر
اب ہواؤں نے کمر پودوں کی لچکائی تو کیا
آنسوؤں میں بہہ گئیں جب خون کی جولانیاں
جنگلوں کی چھاؤں میں برسات اٹھلائی تو کیا
جوشؔ کے پہلو میں جب تم ہی مچل سکتے نہیں
پھر گھٹا کے دامنوں میں برق لہرائی تو کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.