گرتا ہوا درخت
کیا وہ بھی
کبھی تھا
ہاں وہ تھا
ایک چھوٹا سا بیج
ایک دن
زمین سے باہر آیا
پل پل بڑھتا رہا
پل پل ترستا رہا
رہائی کے لیے
لیکن
رہائی ہر کسی کو نہیں ملتی
وہ ایک ہی جگہ
کھڑا ہوا
بڑھتا ہی چلا گیا
کیا اس نے پھل دیے؟
نہیں
لیکن وہ
پھل دینے کے قابل بن گیا
ایک دن
بہت زور کا طوفان آیا
سب کچھ اکھاڑ کے لے گیا
کیا اسے بھی؟
ہاں اسے بھی...
کئی دن اداسی رہی
آخر
کتنے دن
ایک دن سب کچھ
پھر سے ویسا ہی ہو گیا
لیکن
اس درخت کی جگہ
کبھی نہ بھر سکی
اس درخت جیسا
کوئی نہیں ہو سکتا
اس کے پھلوں کی تمنا
آج بھی کہیں دفن ہے
اس کے سوکھے پتے
آج بھی
میری یادوں میں اڑتے ہیں
یاد ہے
اس کا گرنا بھی
اس کے کتنے خواب ہوں گے
کتنی خواہشیں ہوں گی
کچھ بننے کی
تمنا تھی
وہ بھی جینا چاہتا تھا
وقت نے
جینے نہیں دیا اسے
کچھ بننے نہیں دیا اسے
اس درخت کی چھاؤں میری تھی
میں
ایک پرندے کی صورت
اسے تلاش کر رہی ہوں
میرا آشیانہ
اس درخت کی ایک ٹہنی پر تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.