میں کہ تہذیب کا اک حسیں باب تھی
ساز الفت کے تاروں کا مضراب تھی
تیرگی میں بھی ہم رنگ مہتاب تھی
آرزؤں کا اک مرمریں خواب تھی
میرا دامن گلابوں کی مہکار تھا
میری آغوش میں پیار ہی پیار تھا
مسکراتی تھیں یوں دھان کی بالیاں
جیسے دیہات کی کم سخن لڑکیاں
وہ کسانوں کی الفت بھری گالیاں
لوک گیتوں میں ہیں جن کی پرچھائیاں
جن کی تہذیب میری روانی میں ہے
جن کی زندہ دلی میرے پانی میں ہے
میں ہمیشہ سکوں کی پیامی رہی
میرے پانی میں اک خوش خرامی رہی
میرے نغمات کی دھن عوامی رہی
میری قسمت میں لیکن غلامی رہی
آخرش مجھ کو سیلاب نے ڈس لیا
نرم بانہوں کو طوفان نے کس لیا
میری نازک کلائی کے کنگن لٹے
میرے دامن کے شاداب گلشن لٹے
یعنی فصلوں کے بھرپور جوبن لٹے
جھونپڑے ہی نہیں بلکہ آنگن لٹے
مائیں بچوں سے اپنے جدا ہو گئیں
بہتے پانی میں کیا جانے کیا ہو گئیں
کشتیوں کی طرح گاؤں بہتے رہے
اور قدرت کا ہر وار سہتے رہے
ابر و باراں کے سائے میں رہتے رہے
بے وفا میری موجوں کو کہتے رہے
کھیت کھلیان ہل جھونپڑے چھٹ گئے
اور جیالے کسانوں کے دم گھٹ گئے
ناخداؤں کو لیکن خبر تک نہ تھی
رہنماؤں کو لیکن خبر تک نہ تھی
سورماؤں کو لیکن خبر تک نہ تھی
کج اداؤں کو لیکن خبر تک نہ تھی
یک بیک لکھنؤ شہر بہنے لگا
گویا پانی میں کل دہر بہنے لگا
اک ذرا شاہراہیں نہاں ہو گئیں
گنج کی رونقیں بے نشاں ہو گئیں
مدتوں کے لئے نوحہ خواں ہو گئیں
طبع نازک پہ بار گراں ہو گئیں
شور اٹھا کہ تہذیب خطرے میں ہے
آدمیت مصیبت کے نرغے میں ہے
پھر تو لاکھوں یہاں کشتیاں آ گئیں
لے کے امداد میں روٹیاں آ گئیں
فوج والوں کی کل بستیاں آ گئیں
اور غریبوں نے پوچھا کہاں آ گئیں
گاؤں والوں کی اوقات ہی اور تھی
راجدھانی کی کچھ بات ہی اور تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.