گومتی
میرے بچپن کی مری پیاری سہیلی گومتی
تجھ پہ کیا گزری ہے کہ تو یوں سمٹ کر رہ گئی
وہ تری مدھم سروں میں خوش بیانی کیا ہوئی
وہ تری بے ساختہ طرز روانی کیا ہوئی
شوخئ رفتار پر تیری فدا تھا لکھنؤ
ہر قدم پر کہہ رہا نام خدا تھا لکھنؤ
کب بھلا اپنی حدوں میں اس طرح بہتی تھی تو
بے خودی میں سب کنارے توڑتی رہتی تھی تو
لکھنؤ والے ترے انداز کے دیوانے تھے
شمع کے مانند تھی تو سب ترے پروانے تھے
تیرے الہڑ پن کی وہ بے ساختہ مستانہ چال
جیسے آ جائے قلندر کو کسی محفل میں حال
جب کبھی لہریں شرارت پر تری آ جاتی تھیں
درمیان شہر بھی تب کشتیاں چل جاتی تھیں
شہر سے باہر تھی تیری تیز رفتاری فزوں
گھومتی اور موڑتی رہتی تھی اپنی چال تو
نیمۂ شعبان کی راتوں میں آرائش تری
تیرتے بجروں سے روشن حسن و زیبائش تری
روشنی سے مانگ میں افشاں بھرے رہنا ترا
دونوں جانب زلف کا سایہ کئے بہنا ترا
حسن کا تیرے اجالا تھا اودھ کی شام میں
دل کشی تیری تھی ساری لکھنؤ کے نام میں
شہر کی ساری کثافت یوں چھپا لیتی تھی تو
زخم دل پر ریشمی آنچل اڑھا دیتی تھی تو
اوڑھنی آب رواں کی پھینکتی رہتی تھی تو
رقص کرتی گرتی پڑتی بھاگتی چلتی تھی تو
تیرے فطری رقص کو زنجیر پا کس نے کیا
حسن بے پروا کو پابند حیا کس نے کیا
کیوں زمانے کے ستم اس طرح تو سہنے لگی
آنسوؤں کی نہر کے ساتھ کیوں بہنے لگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.