Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گڈے میاں کی شادی

اخگر مشتاق رحیم آبادی

گڈے میاں کی شادی

اخگر مشتاق رحیم آبادی

MORE BYاخگر مشتاق رحیم آبادی

    گڈے میاں کی شادی

    ہر اک سمت گونجے ہوئے قہقہے

    ہنسی دل لگی زمزمے چہچہے

    زمیں مسکرا آسماں خوب جھوم

    کہ باقی نگر میں ہے شادی کی دھوم

    یہاں میہماں اور وہاں میہماں

    جدھر دیکھیے اور جہاں میہماں

    غرض میہماں آئے ہیں بے شمار

    کہ مدت سے اس دن کا تھا انتظار

    نوشہ بنانے کی رسم

    وہ گڈے میاں گھر بلائے گئے

    بٹھا کر وہ نوشہ بنائے گئے

    ہتھیلی پہ مہندی رچائی گئی

    وہ نوشہ کو اچکن پہنائی گئی

    وہ گاؤں کا مالی عتیقؔ آ گیا

    وہ سرسوں کے پھولوں کا صحرا بندھا

    ہر اک رسم سے جب فراغت ہوئی

    تو مرچوں کے پھولوں کی بدھی پڑی

    وہ ہمجولیوں میں لگا قہقہہ

    مراثن جو بن کر اٹھیں ہاشمہؔ

    مراثن بھی ڈھولک بجانے لگی

    خوشی کے ترانے سنانے لگی

    مراثن کو منہ مانگا حق جب ملا

    بہ مشکل مراثن سے پیچھا چھٹا

    بارات کی روانگی

    وہ نوشہ میاں پہنے گوٹے کا ہار

    چلے ایک مینڈھے پہ ہو کر سوار

    چھنا چھن چھنا چھن براتی چلے

    پتیلی کے ڈھکنے بجاتے ہوئے

    وہ انوؔ گویا بھی گاتا ہوا

    فضاؤں میں تانیں اڑاتا ہوا

    نئی زندگانی مبارک رہے

    مبارک یہ شادی مبارک رہے

    بارات دلہن کے مکان پہنچ چکی اب نکاح کا وقت ہے

    قمرؔ ہیں وکیل اور عقیلہؔ گواہ

    ثریاؔ کی گڑیا کا دیکھو بیاہ

    وہ رضیہؔ کو قاضی بنایا گیا

    وہ نوشہ کو محفل میں لایا گیا

    وہ قاضی ورق اک الٹنے لگے

    براتی سب اک جا سمٹنے لگے

    قاضی جی نکاح پڑھاتے ہیں

    مسماۃ گل دختر شیخ خارؔ

    بہ مہر معجل بیاسی ہزار

    گلستاں کا موتی سمندر کا پھول

    کہو بھائی گڈے یہ شادی قبول

    چھوہاروں کی تقسیم

    پڑھا کر اٹھے جیسے قاضی نکاح

    کسی نے چھوہاروں کی دے دی صلاح

    چھوہاروں کی تھالی لٹائی گئی

    شکر بھی مزے لے کے کھائی گئی

    کسی نے چھوہاروں سے ٹوپی بھری

    شکر بھی کہیں خوب پھانکی گئی

    مگر ایک صاحب کمند ہوا

    کہیں کس سے اپنا عجب ماجرا

    یہ ہر چند بچپن کے ہشیار تھے

    چھوہاروں کی لٹس پہ تیار تھے

    مگر بھیڑ میں ایسے کچھ یہ دبے

    کہ ہر پاؤں کے نیچے کچلے گئے

    پٹا پٹ چھوہارے برستے رہے

    مگر یہ بچارے ترستے رہے

    کوئی ناک پر کوئی سر پر لگا

    مگر ان کے منہ تک نہ کوئی گیا

    شکر آنکھ اور کان میں گھس گئی

    بچارے کی پوری ہی درگت بنی

    نتیجہ یہ سب جلد بازی کا تھا

    کہ ان کا مزہ کرکرا ہو گیا

    دلہن کی رخصتی

    وہ چھوٹا سا اک بکس لایا گیا

    میانہ جسے تھا بنایا گیا

    سواری یہ دلہن کی تھی آ گئی

    وہ بیٹھی دلہن وہ ہوئی رخصتی

    کہار اپنے کاندھے بدلتے چلے

    میانے پہ دولہا کی دلہن لئے

    کڑم دھم کڑم دھم چلی پھر برات

    لگی گونجنے گانے باجے سے رات

    انار اور چھچھوندر چھٹاتے ہوئے

    نچھاور کے پیسے لٹاتے ہوئے

    سحر ہوتے ہوتے مکاں آ گئے

    دلہن لے کے گڈے میاں آ گئے

    بارات واپس آ کر

    یہی مہمانوں میں ہے گفتگو

    کہ دولہن ہے بے شک بڑی خوبرو

    سلیقے کے سسرال والے بھی ہیں

    دکھاوا نہیں مال والے بھی ہیں

    یہ سردی کی صبح اور سردی کی شام

    مگر قابل داد ہر انتظام

    یہ برتن یہ کپڑے یہ کرسی یہ میز

    ملا ہے بہت خوب صورت جہیز

    صدا پھر وہ انوؔ کی آنے لگی

    فضاؤں میں مستی لٹانے لگی

    نئی زندگانی مبارک رہے

    مبارک یہ شادی مبارک رہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے