گل بے غیرت
گل کھلاتی ہوئی برسات کے موسم کی پری
صبح کی گود میں لہراتا ہوا کہلا گاؤں
سامنے آنکھ کے گاتا ہوا اس میں تالاب
دور تک بکھری ہوئی دشت طرب ریز میں چھاؤں
اک عجب شان سے جوتے ہوئے کھیتوں کے قریب
کھل رہے ہیں ہری شاخوں پہ گل بے غیرت
کاسنی رنگ کے یہ پھول بھی رکھتے ہیں کشش
کس لئے تنگ نظر کرتے ہیں ان سے نفرت
ہر جگہ پھول یہ کھلتے ہیں عجب ناز کے ساتھ
چاہے وہ دشت ہو یا مینڈ ہو یا ہو میداں
صحن گلشن سے نہیں ہے انہیں کوئی رغبت
ان کو مرغوب ہے دراصل مقام ویراں
کیوں لقب ان کو دیا لوگوں نے بے غیرت کا
تنگ نظروں نے کیا اصل میں انصاف کا خوں
قوت فیصلہ کا ان میں ہے شاید فقدان
عقل و دانش کی جگہ ان میں ہے موجود جنوں
در حقیقت یہ حسیں گل ہیں بہت دریا دل
غور سے دیکھیے ان پھولوں کی فیاضی کو
ہر جگہ رہتے ہیں تیار یہ کھلنے کے لئے
نظر انداز کیا لوگوں نے اس خوبی کو
کیا ضرورت ہے کہ ہر پھول کھلے گلشن میں
کس لئے رنگ سے محروم رہیں ویرانے
ہے مناسب یہی صحراؤں میں بھی پھول کھلیں
نظر آنے لگیں میدانوں میں بھی پیمانے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.