گلہائے عقیدت
یوم آزادی نے یوں چھڑکا فضاؤں میں گلال
گلستاں سے بھینی بھینی خوشبوئیں آنے لگیں
تتلیاں اپنے پروں پر پا کے قابو ہر طرف
صحن گلشن کی روش پر رقص فرمانے لگیں
قمریاں میٹھے سروں کے ساز لے کر آ گئیں
بلبلیں مل جل کے آزادی کے گن گانے لگیں
گل سے اپنی نسبت دیرینہ کی کھا کر قسم
اہل دل کو عشق کے انداز سمجھانے لگیں
صبح دم باد صبا کی شوخیاں کام آ گئیں
لالہ و گل کو بغل گیری کا موقع مل گیا
دیکھ کر اس دوستی کے پر فضا ماحول کو
ساری کلیاں ہنس پڑیں سارا گلستاں کھل گیا
لیکن اس دن کے لئے اے ہم نشینو دوستو
کیسی کیسی بے بہا قربانیاں دینا پڑیں
خون دل دینا پڑا خون جگر دینا پڑا
اپنے خوابوں کی حسیں پرچھائیاں دینا پڑیں
آرزو میں تیری اے گل پوش شہزادی نہ پوچھ
کیسے عالم تاب سرداروں کے سر جاتے رہے
سرزمین ہند کو جنت بنانے کے لئے
کیسے کیسے دست و بازو کے شجر جاتے رہے
خیر اب ہم مطمئن یوں ہیں کہ جان آرزو
ہم نے کچھ کھو بھی دیا ہے اور کچھ پایا بھی ہے
کیسے کیسے عقل کو دے کر دلاسے جان جاں
روح کو تسکین دی ہے دل کو سمجھایا بھی ہے
اب یہی کوشش ہے دل سے اے مری ارض وطن
تیری پیشانی پہ اب کوئی شکن آنے نہ پائے
تو نے پہنی ہے جو آزادی کی مالا شوق سے
عمر بھر کوئی کلی بھی اس کی مرجھانے نہ پائے
اپنے گلہائے عقیدت پیش کرتی ہوں تجھے
مختصر یہ ہے محبت پیش کرتی ہوں تجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.