موت بندوق لیے پھرتی ہے
گلی کوچوں میں دندناتی ہے
کان میں سیٹیاں بجاتی ہے
آسماں ناک پر اٹھاتی ہوئی
ٹھوکروں سے زمیں اڑاتی ہوئی
تختیاں غور سے پڑھتی ہے سب مکانوں کی
گالیاں بکتی گزرتی ہے ہر محلے سے
ریز گاری بھی چراتی ہے روز گلے سے
موت بندوق لیے پھرتی ہے
کوئی گھر سے نکل نہیں پاتا
اس کے ڈر سے نکل نہیں پاتا
بڑی دہشت ہے اس کی گھر گھر میں
موت جیسے کہ گلی کا دادا
جو کسی دوسرے محلے سے
بھتہ لینے کو جو آیا تو پلٹ کر نہ گیا
روز گلیوں میں آ نکلتی ہے
سب دکانوں میں پرچی گرتی ہے
موت بندوق لیے پھرتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.