گریز کرتی ہوئی رتوں میں
کھنڈر کے اندر
کوئی چٹخنی لگا کے بیٹھا
مجید امجدؔ کو پڑھ رہا ہے
یہ سات رنگوں کے کینوس پر جو آٹھواں ہے
یہ شاعری ہے
عجیب بھیدوں کا سلسلہ ہے
سفر پہ نکلیں
تو دن کی دلدل میں دھنستے پاؤں
پرانے رستوں کو مڑ کے دیکھیں
جہاں کبھی کوئی منتظر تھا
کبھی جو آنے میں دیر ہوتی
تو اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے
وہ نم پلستر کو چیر دیتا
یہ ایمفی-تھیٹر کی سیڑھیاں ہیں
یہاں پہ بیٹھے حسین چہروں کو افرودیتی نے چن لیا ہے
بجز محبت
یہ دل ہے خالی کھنکتا برتن
جسے تمنا کی بارشوں نے بھرا نہیں ہے
ہماری آنکھوں پہ روشنی کا ظہور ہونے سے تھوڑا پہلے
کسی نے چینل بدل دیا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.